سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(428) روزے کی حالت میں ٹیکہ لگوانے کا حکم

  • 2713
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2124

سوال

(428) روزے کی حالت میں ٹیکہ لگوانے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا روزے کی حالت میں ٹیکہ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزے کی حالت میں ایسا ٹیکہ لگوانا جائز ہے جس کا مقصد خوراک یا قوت کی فراہمی نہ ہو۔ بلکہ صرف بیماری کا علاج ہو۔ علاج کے لیے ٹیکہ بیرونی دوا کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ معدے میں جاتا ہے نہ اس سے کوئی خوراک ہی حاصل ہوتی ہے۔

ٹیکہ کے استعمال کی دوحالتیں ہیں :

پہلی حالت :

وہ ٹیکے مغذی ہوں یعنی بطور غذا استعمال کیے جاتے ہوں جوکھانے پینے سے مستغنی کردیں ، ایسے ٹیکے کے استعمال سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اس لیے کہ یہ کھانے پینے کے قائم مقام ہیں ۔

دوسری حالت :

وہ ٹیکے مغذی نہ ہوں ایسے ٹیکے کے استعمال سے روزہ نہیں ٹوٹتا ، اس میں کوئي فرق نہیں کہ یہ ٹیکے رگ میں لگائے جائیں یا پھر عضلات میں ۔

لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ یہ ٹیکے بھی رات کے وقت استعمال کیے جائيں تاکہ روزے میں احتیاط ہوسکے ۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

ماہ رمضان میں دن کے وقت روزے دار کا رگ یا عضلات میں ٹیکے لگانے کا حکم کیا ہے، کیا اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا اوراس پرقضاء واجب ہوگی کہ نہیں ؟

شیخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا :

صومه صحيح ؛ لأن الحقنة في الوريد ليست من جنس الأكل والشرب ، وهكذا الحقنة في العضل من باب أولى ، لكن لو قضى من باب الاحتياط كان أحسن . وتأخيرها إلى الليل إذا دعت الحاجة إليها يكون أولى وأحوط ؛ خروجا من الخلاف في ذلك اهـ .( مجموع الفتاوی: 15 / 257 )

اس کا روزہ صحیح ہے اس لیے کہ رگ میں انجیکشن لگانا کھانا پینا تو نہیں ، اوراسی طرح عضلات میں لگائے جانے ٹیکے بھی بالاولیٰ صحیح ہیں ، لیکن اگر احتیاط کرتے ہوئے روزہ کی قضاء میں روزہ رکھے تویہ بہتر اور اچھا ہے، اورجب ضرورت محسوس ہو ایسے ٹیکے رات میں لگانے زيادہ بہتر اوراحسن ہیں اور احتیاط بھی اسی میں ہے تا کہ اس مسئلہ میں اختلاف سے بچا جاسکے ۔

شیخ ابن ‏عثيمین رحمہ اللہ تعالی سے عضلات یا رگ اورچوتڑ میں ٹیکے لگانے کے حکم کے بارہ میں سوال کیا گيا توان کا جواب تھا :

’’ حقن الإبر في الوريد والعضل والورك ليس به بأس ، ولا يفطر به الصائم ، لأن هذا ليس من المفطرات ، وليس بمعنى المفطرات ، فهو ليس بأكل ولا شرب ، ولا بمعنى الأكل والشرب ، وقد سبق لنا بيان أن ذلك لا يؤثر ، وإنما المؤثر حقن المريض بما يغني عن الأكل والشرب اهـ (فتاوی الصیام: 220 )‘‘

رگ ، عضلات اورچوتڑ میں ٹیکا لگانے میں کوئي حرج نہيں ، اوراس سے روزہ دار کا روزہ نہيں ٹوٹتا ، اس لیے کہ یہ روزہ توڑنے والی اشیاء میں شامل نہیں ، اورنہ ہی یہ روزہ توڑنے والی اشیاء کے معنی میں اور قائم مقام ہے ، اورنہ ہی یہ کھانا پینا اورکھانے پینے کی معنی میں شامل ہوتا ہے ۔

ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ یہ اثرانداز نہيں ہوتا ، بلکہ مریض کو وہ ٹیکے اثر انداز ہونگے جو کھانے پینے سے مستغنی کردیں ۔ ا ھـ

اللجنۃ الدائمۃ سے مندرجہ ذيل سوال کیا گيا :

رمضان میں دن کے وقت روزہ کی حالت میں بطور علاج یا مغذی ٹیکے لگانے کا حکم کیا ہے ؟

کمیٹی کا جواب تھا :

’’ فأجابت : يجوز التداوي بالحقن في العضل والوريد للصائم في نهار رمضان ، ولا يجور للصائم تعاطي حقن التغذية في نهار رمضان ، لأنه في حكم تناول الطعام والشراب فتعاطي تلك الحقن يعتبر حيلة على الإفطار في رمضان ، وإن تيسر تعاطي الحقن في العضل والوريد ليلا فهو أولى اهـ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء: 10 / 252 )

روزہ دار کے لیے عضلات اور رگ میں ٹیکے سے علاج کروانا جائز ہے ، لیکن روزہ دار کے لیے مغذی ٹیکے لگوانے جائز نہيں اس لیے کہ یہ کھانے پینے کے معنی میں شامل ہوتے ہیں اس کا استعمال کرنا رمضان میں روزہ افطارکرنے کا ایک حیلہ شمار ہوگا ، اوراگر رگ اورعضلات میں رات کو ٹیکا لگوانا ممکن ہو تو یہ اولی اوربہتر ہے ۔ اھـ

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

تبصرے