الحمد للہ.
اول:
كسى بھى عورت كو ايسے شخص سے شادى كرنے پر مجبور كرنا جائز نہيں جس سے وہ شادى نہ كرنا چاہتى ہو؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ايم ( طلاق يافتہ يا بيوى ) عورت ولى سے زيادہ اپنے آپ كى حقدار ہے، اور كنوارى سے اس كى بارہ ميں اجازت طلب كى جائيگى اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1421 ).
اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" شادى شدہ عورت سے مشورہ كيے بغير اس كى شادى نہيں كى جائيگى، اور كنوارى عورت كى شادى اس كى اجازت كے بغير نہيں كى جائيگى "
صحابہ نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: اس كى اجازت كيسے ہو گى ؟
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ خاموش ہو جائے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4843 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1419 ).
اگر اس كى رضامندى كے بغير شادى كر دى جائے تو راجح قول كے مطابق وہ نكاح صحيح نہيں ہو گا، اور جب اس كى شادى مناسب رشتہ اور كفؤ سے نہ كى گئى ہو تو بالاولى صحيح نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب اس كى غير كفؤ ميں شادى كر دى جائے تو اس كا نكاح باطل ہے، يہ امام احمد كى ايك روايت ہے، اور امام شافعى كا ايك قول بھى يہى ہے، كيونكہ كفؤ كے بغير اس كى شادى كرنا جائز نہيں، اس ليے وہ باقى حرام نكاحوں كى طرح صحيح نہيں ہو گا.
اور اس ليے بھى كہ ولى نے اپنى ولايت ميں عورت كا نكاح ايسا نكاح كيا ہے جس ميں اسے اس عورت كى اجازت كے بغير كوئى حق حاصل نہ تھا، اس ليے وہ صحيح نہيں ہوگا، بالكل اسى طرح جس طرح اس كى جائداد بغير كسى ضرورت كى فروخت كر دى جائے، يا پھر اس جيسى قيمت كے بغير اسے فروخت كر ديا جائے.
اور اس ليے بھى كہ وہ شرعا اس كا نائب ہے، لہذا جس ميں اس كا كوئى حصہ نہيں اس ميں اسے تصرف كرنے كا كوئى حق حاصل نہيں جيسا كہ وكيل ہو " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 31 ).
اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
خنساء بنت خذام الانصاريہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتى ہيں كہ:
" ان كے والد نے ان كى شادى كر دى اور وہ ثيب ( طلاق يافتہ يا بيوى تھيں ) تھيں، تو اس نے اسے ناپسند كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے نكاح كو رد كر ديا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4845 ).
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك كنوارى لڑكى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور بيان كرنے لگى كہ اس كے والد نے اس كى شادى كر دى ہے اور وہ مكرہ تھى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اختيار دے ديا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2096 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ليكن اس مسئلہ ميں راجح قول يہ ہے كہ:
والد اور كسى دوسرے كے ليے جائز نہيں كہ وہ عورت كو كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرے جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى اگرچہ وہ كفؤ بھى ہو، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" كنوارى عورت كا نكاح اس كى اجازت كے بغير نہيں كيا جائيگا "
اور يہ عام ہے، اس ميں كسى بھى ولى كو مستثنى نہيں كيا گيا، بلكہ صحيح مسلم ميں وارد ہے كہ:
" كنوارى عورت سے اس كا والد اجازت لےگا "
تو يہ كنوارى اور باپ دونوں كے متعلق نص ہے، اور يہ نص محل نزاع ميں ہے اس ليے اس كى طرف جانا ضرورى ہے، اس بنا پر كسى بھى شخص كا اپنى بيٹى سے كسى ايسے شخص كے ساتھ شادى كرنے پر مجبور كرنا جس سے وہ شادى نہيں كرنا چاہتى حرام ہے، اور حرام نہ تو صحيح ہوتا ہے اور نہ ہى نافذ كيونكہ اس كو صحيح كہنا اور اسے نافذ كرنا اس كى مخالف ہے جس كى نہى وارد ہے.
اور شرع نے جس سے منع كيا ہے، تو شريعت امت سے يہ چاہتى ہے كہ وہ كام ميں نہ پڑے اور نہ ہى ايسا عمل كرے، جب ہم اسے صحيح قرار ديں تو اس كا يہ معنى ہوا كہ ہم اس ميں پڑ چكے ہيں، اور اس پرعمل كيا ہے، اور اسے ہم نے ان عہد ميں شامل كر ديا جو شريعت نے مباح كيا ہے، اور يہ نہيں ہو سكتا.
اس راجح قول كى بنا پر آپ كے والد كا اپنى بيٹى كى شادى ايسے شخص سے كرنا جس كو وہ نہيں چاہتى تھى يہ شادى فاسد ہے، اور فاسد عقد نكاح كے بارہ ميں عدالت كو ہى ديكھنا چاہيے " انتہى
ماخوذ از نور على الدرب.
اس بنا پر اس لڑكى كو شرعى عدالت سے رجوع كرنا چاہيے اور عدالت سے فسخ نكاح كا مطالبہ كرے؛ كيونكہ وہ ابتدا سے ہى اس خاوند پر راضى نہيں، اور پھر اس كى معاشرت بھى خراب ہے اور زدكوب بھى كرتا ہے.
دوم:
عورت كى شادى كرنے كا سب سے زيادہ حقدار اس كا باپ اور پھر اس كے بعد دادا ہے چاہے اوپر پڑدادا بھى ہو، پھر اس كا سگا بھائى پھر باپ كى جانب سے بھائى، پھر ان كے بيٹے، اور يہ سب چچا پر مقدم ہونگے، اور قريبى كى موجودگى ميں چچا كى طرح دور والا ولى نہيں بن سكتا.
سوم:
جب نكاح قائم ہے اور فسخ نہيں ہوا، تو آپ كے ليے اس عورت كو رشتہ كا پيغام دينا جائز نہيں، اور جب نكاح فسخ ہو جائے اور اس كى عدت ختم ہو جائے تو آپ كے ليے اس كے ولى سے اس كا رشتہ طلب كرنا جائز ہو گا.
چہارم:
اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے معلوم ہوا كہ عورت راضى نہ ہو تو بعض اہل علم كے ہاں نكاح صحيح نہيں، اور كچھ علماء كہتے ہيں كہ يہ عورت كى اجازت پر موقوف ہے، اس بنا پر اگر عورت خاوند كے ساتھ نہ رہنا چاہتى ہو، تو قاضى اسے طلاق دے ديگا، اور اس ميں خاوند كى رائے كى نہيں ديكھےگا.
اور اسى طرح جب قاضى كے ثابت ہو جائے كہ خاوند كے فسق اور اس كے برے معاملہ كى بنا پر عورت كو نقصان ہو تو قاضى طلاق دےگا.
اور اگر اس علاقے اور ملك ميں قاضى نہ ہو تو اس طرح كا شخص اسے طلاق دےگا، اور اس عورت كے ليے ممكن ہے كہ وہ اپنے خاوند سے خلع حاصل كر لے، اور كچھ دے كر اپنى جان چھڑا لے چاہے اس كے ليے اسے اپنا سارا حق ہى چھوڑنا پڑے يا كچھ حق، تا كہ وہ اس خاوند سے اپنے آپ اور اپنے دين كو محفوظ ركھ سكے.
پنجم:
كفؤ نكاح ميں معتبر ہے، جو كہ دينى كفؤ ہے، اس ليے مسلمان عورت كا كافر مرد كے ساتھ نكاح نہيں كيا جائيگا، اور نہ ہى فاسق مرد كا كسى عفيفہ عورت سے.
زاد المستقنع ميں ہے:
" اگر باپ نے عفيفہ بيٹى كا نكاح كسى فاجر شخص كے ساتھ كر ديا تو جو عورت يا ولى راضى نہ ہو تو اسے فسخ كا حق حاصل ہے " انتہى مخصرا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے يہ راجح قرار ديا ہے كہ اولياء كو مكمل طور پر نكاح فسخ كرنے كاحق حاصل نہيں، اگر خاوند شراب نوش ہو تو اس حالت ميں انہيں نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ اس كا بيوى اور اولاد كو نقصان پہنچنے كا خدشہ ہے.
شيخ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" جب يہ علم ہو جائے كہ يہ خاوند شراب نوشى كرتا ہے تو دور كے ولى كے ليے نكاح فسخ كرنے كا مطالبہ كرنے كاحق حاصل ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 105 ).
يہاں ايك تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ: آپ اس عورت كے اجنبى اور غير محرم ہيں اس ليے آپ كا اس سے ٹيلى فون پر رابطہ كرنا اور اس كے ساتھ شادى كے بارہ ميں بات چيت كرنا جائز نہيں، تا كہ فتنہ و فساد كے اسباب سے دور رہا جائے اور اس كا باب بند كيا جائے.
واللہ اعلم .