الحمد للہ.
اول:
غير اللہ كو پكارنا اور غير اللہ كے ليے ذبح كرنا جائز نہيں جو كوئى بھى ايسا كرے وہ شرك اكبر كا مرتكب ہو كر ملت اسلام سے خارج ہو جائيگا؛ كيونكہ دعاء اور ذبح عبادات ميں شامل ہے اور عبادت صرف اللہ وحدہ لاشريك كى ہوگى اس ليے جس نے بھى غير اللہ كى عبادت كى تو وہ مشرك ہے.
دوم:
نكاح ميں ولى اور گواہوں كا مسلمان ہونا شرط ہے، اس ليے كسى كافر كو مسلمان عورت پر ولايت حاصل نہيں ہوگى اور عقد نكاح ميں كسى كافر كى گواہى بھى صحيح نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اہل علم كا اجماع ہے كہ كافر كو كسى مسلمان عورت پر كسى بھى حالت ميں ولايت حاصل نہيں " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 377 ).
اور ابن قدامہ ہى ايك مقام پر رقمطراز ہيں:
" نكاح دو مسلمان گواہوں كى گواہى سے ہى منعقد ہو گا، چاہے خاوند اور بيوى دونوں مسلمان ہوں، يا پھر خاوند اكيلا مسلمان ہو، امام احمد نےيہى بيان كيا اور امام شافعى كا بھى يہى قول ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ولى اور دو عادل گواہوں كے بغير نكاح نہيں ہوتا " انتہى
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 7 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر آدمى نماز ادا نہ كرتا ہو تو اس كے ليے اپنى كسى بھى بيٹى كا نكاح كرنا حلال نہيں، اور اگر وہ نكاح كر بھى دے تو يہ نكاح فاسد ہوگا؛ كيونكہ مسلمان عورت كے ولى كے ليے مسلمان ہونا شرط ہے " انتہى
ماخوذ از: نور على الدرب.
سوم:
سوال ميں تعيين نہيں كى گئى كہ شركيہ اعمال كا مرتكب كون ہے آيا لڑكى كا ولى يا كہ كوئى ايك گواہ؛ اس ليے اگر تو كوئى ايك گواہ غير اللہ كے ليے ذبح كرنے اور قبروں كى عبادت كرنے والا ہے، اور عقد نكاح كے بعد نكاح كا اعلان بھى ہو چكا ہے تو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كے اختيار كردہ كے مطابق ان شاء اللہ نكاح صحيح ہے، كہ واجب تو نكاح كا اعلان كرنا ہے، چاہے گواہ نہ بھى ہوں.
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" بلاشك و شبہ اعلان نكاح كے ساتھ نكاح صحيح ہے چاہے دو گواہ نہ بھى ہوں " انتہى
ديكھيں: الاختيارات الفقھيۃ ( 177 ).
ليكن اگر ولى مشرك ہے تو پھر نكاح كى تجديد ضرورى ہے؛ كيونكہ نكاح كا ولى ہونے ميں مسلمان شرط ہے، اگر نكاح كے بعد ولى شركيہ اعمال سے توبہ كرچكا ہے تو وہ عقد نكاح كى تجديد ميں نكاح كى ذمہ دارى ادا كريگا، ليكن اگر اس نے توبہ نہيں كى تو پھر اس كے بعد والا كوئى قريب ترين مسلمان ولى نكاح كى ذمہ دارى ادا كريگا.
اور دوسرا نكاح عدالت سے توثيق كرانے ضرورى نہيں كيونكہ پہلا نكاح رجسٹر كرايا جا چكا ہے، خاص كر جب دوسرا نكاح رجسٹركرانے ميں ضرر اور نقصان كا انديشہ ہو تو پہلے پر ہى اكتفا كيا جائيگاز
يہ سب كچھ اس صورت ميں ہے جب ولى يا كسى ايك گواہ پركفر اور دين سے اخراج كا بالتعيين حكم لگايا جائے، ليكن اگر وہ نيا نيا مسلمان ہوا ہو اور اسے شرك كا علم نہيں يا پھر اس كا ملك اور علاقہ اہل علم سے دور ہے وہاں اسے اس كى غلطى سمجھانے والا كوئى نہيں، اور خالص توحيد بتانے والا كوئى نہيں تو پھر ان شركيہ اعمال ميں پڑنے كى وجہ سے اس پر كفر كا حكم نہيں لگايا جائيگا، بلكہ جہالت كى بنا پر اسے معذور سمجھا جائيگا، اور اس نے اپنا يا كسى دوسرے كا نكاح كيا ہے وہ صحيح شمار ہوگا، كيونكہ اسے اصل پر ركھتے ہوئے مسلمان كا حكم ديا جائيگا اور كفر كا حكم اسى صورت ميں ديا جائيگا جب اس پر حجت اور دليل قائم كر لى جائے.
اس طرح كے افراد پر ضرورى ہے كہ وہ علم حاصل كريں اور بااعتماد اور پختہ اہل علم سے دريافت كريں تا كہ بصيرت كے ساتھ اللہ كى عبادت كر سكيں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" كسى معين شخص كو كافر قرار دينا اور اس كے قتل كو جائز كہنا اس موقوف ہے كہ اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حجت اور دليل پہنچائى جائے جس كى مخالفت كرنے پر كفر ہوتا ہو، وگرنہ ہر وہ شخص جو دين كى كسى چيز سے جاہل ہو اسے كافر نہيں قرار ديا جائيگا " انتہى
ديكھيں: كتاب الاستغاثۃ ( 2 / 492 ).
واللہ اعلم .