الحمد للہ.
اول:
نکاح کی درستگی کیلئے یہ شرط ہے کہ لڑکی کا ولی یا پھر اسکے ولی کا نمائندہ عقدِ نکاح کروائے، اور اس کیلئے دو عادل مسلمان گواہ ہوں؛ اسکی دلیل آپ صلی اللہ علیہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں)
اسے ابو داود (2085) ترمذی (1101) اور ابن ماجہ (1881) نے ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، اور البانی نے صحیح ترمذی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک اور فرمان: (ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح نہیں) اسے بیہقی نے عمران، اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے، اور صحیح الجامع میں البانی رحمہ اللہ نے (7557) پر صحیح کہا ہے۔
لیکن کچھ ائمہ کرام اس بات کے قائل ہیں کہ عورت خود بھی اپنا نکاح کرسکتی ہے، چنانچہ کچھ اسلامی ممالک نے اسی قول کو اپنایا ہوا ہے، لہذا اگر نکاح عدالت میں ہوا ہے، یا کسی ایسے شخص نے نکاح پڑھایا ہے جسے نکاح پڑھانے کی اجازت ہے، تو اس نکاح کو صحیح تصور کیا جائے گا۔
چنانچہ [ان دونوں] میاں بیوی کے درمیان طلاق سے ہی علیحدگی ہوسکتی ہے۔
لہذا اگر خاوند بیوی کو چھوڑنا چاہتا ہے تو طلاق دینے میں کوئی حرج نہیں، اور لڑکی کی عدت طلاق کا لفظ بولنے سے ہی شروع ہوجائے گی، چاہے اسکا خاوند ایک سال یا زیادہ عرصے سے دور ہو۔
اسکی عدت حیض آنے کی صورت میں تین حیض ہیں۔
واللہ اعلم .