الحمد للہ.
بيوى كا ذہن خاوند كے بارہ ميں خراب كرنا اور بيوى ميں خرابى پيدا كرنا كبيرہ گناہ ہے، اور اور بيوى كے خاندان والوں كے ليے يہ بہت ہى برا اور قبيح عمل ہے كہ وہ اس شيطانى فعل كو سرانجام ديتے ہوئے خاوند اور بيوى ميں خرابى پيدا كريں، اور پھر يہ تو جادوگروں كے عمل ميں شمار ہوتا ہے جو كہ ابليس كے لشكر ميں سب سے بڑا عمل سمجھا جاتا ہے، اور شيطان اس سے بہت زيادہ خوش ہوتا ہے.
اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
تو وہ ان دونوں سے وہ ( جادو ) سيكھتے ہيں جو خاوند اور بيوى كے درميان جدائى ڈال دے البقرۃ ( 102 ).
اور حديث شريف ميں ہے:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے عورت كو اس كے خاوند پر خراب كيا وہ ہم ميں سے نہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2175 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اس كو صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.
خبّب: خاء كے بعد باء پر شد ہے جس كا معنى دھوكہ ميں ركھنا اور خراب كرنا ہے.
اور جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ابليس اپنا تخت پانى پر لگاتا ہے اور پھر اپنے لشكر اور پارٹياں روانہ كرتا ہے، اور ان ميں سے سب سے زيادہ قرب والا وہ ہے جو سب سے زيادہ فساد كرنے والا ہو، ان ميں سے ايك آ كر كہتا ہے ميں نے يہ كام كيا، تو ابليس كہتا ہے تم نے كچھ نہيں كيا.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر ان ميں ايك آ كر كہتا ميں اس كے ساتھ لگا رہا حتى كہ اس كے اور اس كى بيوى كے درميان جدائى ڈال دى، نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تو ابليس اس كے قريب ہوتا ہے اور اسے كہتا ہے ہاں تو نے كام كيا ہے "
اعمش رحمہ اللہ كہتے ہيں: " تو وہ اس سے معانقہ كرتا اور اپنے ساتھ لگاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2813 ).
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" چنانچہ آدمى اور اس كى بيوى كے مابين عليحدگى كرانے كى كوشش كرنا اور خرابى پيدا كرنا بہت سخت اور شديد گناہ شمار ہوتا ہے، اور يہ جادوگروں كے عمل ميں سے ہے جو كہ شيطانوں كے عظيم افعال ميں شمار ہوتا ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 23 / 363 ).
اور شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:
ايسے شخص كے متعلق بہت شديد وعيد آئى ہے جو بيوى كو اس كے خاوند كے ليے خراب كرے اور ان ميں فساد پيدا كرنے كى كوشش كرتا ہو، حديث ميں آيا ہے:
" جو شخص كسى عورت كو اس كے خاوند كے ليے خراب كرتا ہے وہ ملعون ہے "
اس كا معنى يہ ہے كہ: وہ بيوى كے اخلاق ميں فساد پيدا كر كر كے مياں اور بيوى ميں نفرت اور خرابى كا باعث بنتا ہے.
بيوى كے گھر والوں پر واجب ہے كہ وہ خاوند اور بيوى كى اصلاح كرنے كى حرص كريں؛ كيونكہ اس عورت كى مصلحت اسى ميں ہے اور ان كى بھى مصلحت كا باعث ہے.
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 248 - 249 ).
چنانچہ بيوى كے خاندان والوں پر واجب و ضرورى ہے كہ وہ اللہ عزوجل كا تقوى اختيار كريں، اور وہ جان ليں كہ انہوں نے كبيرہ گناہ كا ارتكاب كيا ہے، اس ليے انہوں نے جو خرابى پيدا كى ہے اس كى اصلاح كرنا ضرورى ہے، اور وہ بيوى ( يعنى اپنى بيٹى ) كو اس كے خاوند كے پاس واپس بھيج ديں، اسى ميں ان كى بھى اور ان كى بيٹى كى بھى مصلحت ہے.
اسى طرح بيوى كو بھى اللہ كا تقوى اختيار كرنا چاہيے جو كہ اس كا پروردگار بھى ہے، اور وہ كسى ايسے شخص كى طرف التفات مت كرے جو اس كے گھر كو اجاڑنا چاہتا ہو اور ان كے درميان خرابى و فساد پيدا كرنے كى كوشش كرے، ديكھيں خاوند تو اس كا خاوند تو اس سے محبت كا اعلان كر رہا ہے اور كہتا ہے كہ اس سے كوئى ايسى چيز صادر نہيں ہوئى جو اس سے عليحدہ ہونے كا باعث بنى ہو.
اس ليے بيوى كے سامنے توبہ كے علاوہ كوئى راستہ نہيں اور اسے اپنے خاوند سے معافى طلب كرنى چاہيے، اور اپنے ازدواجى گھر ميں واپس آ جانا چاہيے، يہ ايك ايسى نعمت ہے جس سے دنيا ميں لاكھوں عورتيں محروم رہتى ہيں، اس ليے اسے كسى بھى قيمت پر بدنصيبى و بدبختى نہيں خريدنى چاہيے، حالانكہ اس كى سعادت و خوشبختى كے ليے خاوند نے كتنا مال بختى كے ليے كتنا مال بھى خرچ كيا ہے.
اور بيوى كو يہ علم ہونا چاہيے كہ جو عورت بغير كسى سبب كے طلاق كا مطالبہ كرتى ہے اس كے ليے حديث شريف ميں بہت شديد قسم كى وعيد آئى ہے، اور وہ اس طلاق كى شدت ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو عورت بھى بغير كسى سبب كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كرے تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كا خاوند سے طلاق طلب كرنے كى جتنى احاديث ميں وعيد آئى ہے وہ سب اس پر محمول ہے كہ جب اس طلاق طلب كرنےكا كوئى سبب نہ ہو تو پھر يہ وعيد ہے "
ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 402 ).
چنانچہ اگر خاوند ميں ايسے عيب ہوں جو طلاق طلب كرنے كا باعث ہوں، اور وہ اپنى شادى پر صبر كرنے كى قدرت نہيں ركھتى تو پھر اس حالت ميں اس كے طلاق طلب كرنےميں كوئى حرج نہيں، اور اگر اس كا خاوند طلاق دينے پر راضى نہ ہو تو اسے خلع طلب كرنے كا حق حاصل ہے، اور وہ اپنے آپ كو اس سے چھڑانے كے ليے جس چيز كا مطالبہ كرے اسے ادا كرنا چاہيے.
دوم:
ہم آخر ميں خاوند سے بھى عرض كريں گے كہ:
اگر تو آپ كى بيوى نے كسى ايسى معصيت و نافرمانى كى بنا پر طلاق طلب كى ہے جو اس نے ديكھى يا كوئى ايسا سلوك ديكھا جس كو وہ برداشت نہيں كر سكى مثلا زدكوب كرنا اور اس كى اہانت و بےعزتى كرنا اور اسے گالياں نكالنا وغيرہ تو پھر اس كا طلاق طلب كرنا كوئى گناہ نہيں، اور اسے پورا مہر لينے كا حق حاصل ہے چاہے وہ ادا كر ديا گيا ہے يا ابھى ادا نہيں كيا گيا.
اور اگر وہ بغير كسى سبب كے طلاق طلب كر رہى ہے جيسا كہ آپ نے اپنے قصہ ميں بيان كيا ہے تو پھر وہ گنہگار ہو گى اور آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ اسے طلاق نہ دينے پر اصرار كريں، اور آپس ميں اصلاح كے ليے عقلمند قسم كے افراد كو اس معاملہ ميں دخل دينے كى كوشش كريں جو آپ اور اس كے خاندان ميں صلح كرانے كى كوشش كريں.
اور اگر يہ چيز بھى كوئى فائدہ نہ دے تو آپ اس معاملہ كو يعنى بيوى كا آپ كو چھوڑ كر جانا اور اس كے خاندان والوں كا آپ كے درميان فساد پيدا كرنے كے معاملہ كو عدالت ميں لے جائيں اگر آپ اس كو صحيح خيال كرتے ہوں، ليكن ہم اس طرح كے عمل كو كرنے كى نصيحت نہيں كرتے.
بلكہ ہم تو يہى نصيحت كرينگے كہ اگر سفارش كرنے والوں كى وجہ سے بھى آپ كى صلح نہ ہو سكے تو آپ خلع قبول كر ليں اور آپ اس بيوى اور اس كے خاندان والوں سے مہر اور شادى كے اخراجات كا مطالبہ كريں، اور اسى طرح اگر آپ كى كوئى اولاد ہے تو اس كا حق پرورش بھى اس بيوى سے واپس لے ليں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے درميان صلح كرا دے اور آپ كى بيوى كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جس سے وہ راضى ہوتا ہے اور اسے پسند ہيں، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى پر جمع كر دے.
واللہ اعلم .