الحمد للہ.
بیوی معاوضہ دے کرعلیحدہ ہوتو اسے خلع کہا جاتا ہے ، اس طرح خاوند معاوضہ لے کر اپنی بیوی کوچھوڑدے چاہے وہ یہ معاوضہ مہر جوکہ خاوند نے دیا تھا وہ ہو یا اس سے زيادہ اوریا پھر کم ہو ۔
اس کی دلیل اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورتمہارے لیے حلال نہیں کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ دونوں اس سے خوفزدہ ہوں کہ وہ اللہ تعالی کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے ، توپھر ان پر کوئي گناہ اورجرم نہیں کہ وہ اس کا فدیہ دیں البقرۃ ( 229 ) ۔
سنت نبویہ میں اس کی دلیل ثابت بن شماس رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی کی حدیث ہے ۔
ثابت بن شماس رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگي : اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ثابت بن قیس پر کوئی دینی یا اخلاقی عیب نہیں لگاتی ، لیکن میں اسلام میں کفرکوناپسند کرتی ہوں ۔
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرما یا کہ آیا تواس کا باغ واپس کرتی ہے ؟ یہ باغ انہوں نے اسے مہر میں دیا تھا ، تووہ کہنے لگی جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اپنا باغ قبول کرلو اوراسے چھوڑدو ۔ صحیح بخاری حديث نمبر ( 5273 ) ۔
علماء کرام نے اس قصہ سے یہ استنباط کیا ہے کہ جب عورت اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کی طاقت نہ رکھے توولی الامر اورحکمران اس کے خاوند سے خلع طلب کرے بلکہ اسے خلع کا حکم دے ۔
خلع کی صورت یہ ہے کہ :
خاوند کے عوض میں کچھ لے یا پھر وہ کسی عوض پر متفق ہوجائيں اورپھر خاوند اپنی بیوی کوکہے کہ میں نے تجھے چھوڑدیا یا خلع کرلیا یا اس طرح کے دوسرے الفاظ کہے ۔
اورطلاق خاوند کا حق ہے یہ اس وقت تک واقع نہیں ہوسکتی جب تک وہ طلاق نہ دے ، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( طلاق اس کا حق ہے جوپنڈلی کوپکڑتا ہے ) یعنی خاوند سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2081 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 2041 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے ۔
اسی لیے علماء کرام نے یہ کہا ہے کہ : جسے اپنی بیوی کوطلاق دینے پرظلم کے ساتھ مجبور کیا جاۓ اوراس نے طلاق دے دی تو اس کی یہ طلاق واقع نہیں ہوگی ۔ دیکھیں المغنی ابن قدامہ ( 10 / 352 ) ۔
اورآّّپ نے جویہ ذکر کیا ہے کہ بعض اوقات بیوی حکومتی قوانین کے مطابق اپنے آپ کوطلاق دے دے ۔ تواس کےبارہ میں ہم کہيں گے کہ :
اگر تویہ کسی ایسے سبب کی بنا پر ہے جس کی بنا پرطلاق مباح ہوجاتی ہے مثلا اگروہ خاوند کوناپسند کرنے لگے ، اوراس کے ساتھ زندگی نہ گزارسکے ، یا پھر خاوند کے فسق وفجوراورحرام کام کرنے کی جرات کرنے کی بنا پر اسے دینی اعتبار سے ناپسند کرنے لگے وغیرہ ، تو اسے طلاق کا مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن ایسی حالت میں وہ خاوند سے خلع کرلے اوراس کا دیا ہوا مھر واپس کردے ۔
اوراگر وہ طلاق کا مطالبہ کسی سبب کے بغیر کرے توایسا کرنا اس کے لیے جائز نہيں اوراس حالت میں عدالت کا طلاق کےمتعلق فیصلہ شرعی نہيں ہوگا بلکہ عورت بدستور اس آدمی کی بیوی ہی رہے گی ۔
تویہاں پرایک مشکل پیش آتی ہے کہ قانونی طور پر تو یہ عورت مطلقہ شمار ہوگی اورعدت گزرنے کے بعد اورکہیں شادی کرلےگی لیکن حقیقت میں بیوی کوطلاق ہوئی ہی نہيں ۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی نے اس جیسے مسئلہ میں کچھ اس طرح کہا ہے :
اب ہمارے سامنے ایک مشکل ہے ، اس کی زوجیت اورعصمت میں رہتے ہوۓ کہیں اورشادی کرنا اس کے لیے حرام ہے ، اور ظاہری طور پر عدالت کے حکم کے مطابق اسے طلاق ہوچکی ہے اورجب عدت ختم ہوجاۓ تو وہ کہیں اورشادی کرسکتی ہے ۔
تومیری راۓ یہ ہے کہ اس مشکل سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ اہل خیر اوراصلاح کرنے والے لوگ ضرور اس مسئلہ میں دخل دیں تا کہ خاوند اوربیوی کے درمیان صلح ہوسکے ، وگرنہ وہ عورت اپنے خاوند کوعوض ادا کردے تا کہ شرعی طور پر خلع ہوسکے ۔
شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے ملاقات کا دروازہ کھلا ہے نمبر ( 54 ) دیکھیں کتاب لقاء الباب مفتوح نمبر ( 54 ) ( 3 / 174 ) طبع دار البصیرہ مصر ۔
واللہ اعلم.