سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(05) کنوئیں میں کوے کی بیٹ گر جائے تو کیا حکم ہے؟

  • 2691
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3866

سوال

(05) کنوئیں میں کوے کی بیٹ گر جائے تو کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حنفیہ کے نزدیک اگر کنویں میں کوّے کی بیٹ گر جائے تو کنواں ناپاک ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کی بیٹ کے متعلق فقہ میں مختلف روایات ہیں۔ ہدایہ میں ہے، اگر غیر ماکول اللحم جانور کی بیٹ درہم سے زیادہ لگ جائے، تو اس کپڑے سے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز جائز نہیں، پھر بعض کے نزدیک تو اختلاف نجاست و غیر نجاست میں ہے اور بعض کے نزدیک مقدار میں، اور صحیح آخری شق ہے، امام محمد کہتے ہیں نجاست خفیفہ کسی ضرورت کی بناء پر ’’خفیفہ‘‘ بنتی ہے اور یہاں کوئی ضرورت نہیں ہے اور شیخین کہتے ہیں کہ یہ مجبوری کی بنا پر ہے کیونکہ پرندے ہوا سے بیٹ پھینک دیتے ہیں اور اس سے بچنا مشکل ہے، تو ضرورت پیدا ہو گئی اگر ایسے پرندے کی بیٹ برتن میں گر پڑے تو اس میں بھی اختلاف ہے، بعض کے نزدیک وہ پلید ہے اور بعض کے نزدیک نہیں، کرخی کے قول کے مطابق شیخین کے نزدیک ایسے پرندوں کی بیٹ سرے سے پلید ہی نہیں، محمد اس کو پلید کہتے ہیں، ہندوانی نے کہا ہے کہ امام صاحب کے نزدیک یہ بیٹ نجاست خفیفہ ہے اور صاحبین کے نزدیک غلیظہ، قاضی خان نے کہا ہے کہ ایسے پرندوں کی بیٹ شیخین کے نزدیک نجس ہے اگر تھوڑے پانی میں گرے تو ناپاک ہو جاتا ہے اور کرخی کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک نجس نہیں ہے اور صاحب مبسوط نے اسی کو پسند کیا ہے، علامہ طحطاوی نے کہا ہے۔ ’’اگر ایسے پرندوں کی بیٹ کنویں میں گِر پڑے ، جن کا گوشت کھانا حرام ہے تو اس سے کنواں ناپاک نہیں ہوتا، درمختار میں بھی ایسا ہی ہے، حلبی کا بھی یہی قول ہے، تو ان تینوں کے فتویٰ پر پانی پاک ہے۔ واللہ اعلم
من نجساسة مخففة کبول ما کول اللحم وخرء وطیر من السباع او غیر ھا غیر ما کول وقیل طاہر وصحح  الخفة انما تظھر فی غیر الماء فلیحفظ کذافی درالمختار قولہ ثم الخفۃ انما تظھر فی غیر الماء مفھومہ ان الخفیفة کلھا تنجس ویستثنیٰ منہ خرئو طیر ما لا یوکل بالنسبة الی البیر فانہ لا ینجسھا کما ذکرناہ آنفا حلبی انتھیٰ ما فی الطحاوی
پس بموجب قول صاحت درمختار و طحطاوی و ابراہیم حلبی از افتاون پنچال زاغ چاہ نجس نشود
کما لا یخفیٰ علی المتأمل واللہ اعلم بالصواب حررہ سید شریف حسین عفہ عنہ
 الجواب صحیح والرای نجیح۔ سید محمد نذیر حسین ۱۲۸۱

هٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الطہارۃ جلد 1 ص 19

محدث فتویٰ

تبصرے