الحمد للہ.
اول:
سود كبيرہ گناہ ہے، اور يہ ايسا گناہ ہے جس كى حرمت كسى مسلمان پر مخفى نہيں، ليكن دنياوى طمع و لالچ اور زيادہ مال كا حصول ہى لوگوں كو اس گناہ ميں ان نافرمانوں كو لگائے ہوئے ہے، جس كى بنا پر وہ اللہ كى ناراضگى و غضب كا شكار بھى ہو رہے ہيں اور اس كے باعث سزا كے بھى مستحق ٹھر رہے ہيں.
سود لينے اور دينے والا دونوں ہى لعنتى ہيں، اور ان دونوں كو برابر كا گناہ حاصل ہوتا ہے، سود خور وہ شخص ہے جو سود پر قرض دے يعنى مال دے كر زيادہ حاصل كرے، اور سود كھلانے والا وہ ہے جو سود پر قرض ليتا ہے.
افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ بہت سارے لوگ اس گناہ ميں پڑے ہوئے ہيں، اور اس سے بھى زيادہ خطرناك بات يہ ہے كہ اس كى حرمت كو بہت ہى چھوٹا سمجھا جاتا ہے، آپ ديكھيں گے كہ لوگ ايك دوسرے سے سوال كرتے پھرتے ہيں كہ وہ اپنا مال كہاں ركھتے ہيں ؟ اور تم اس پر كتنا فائدہ لے رہے ہو! اور جھگڑا ہوتا ہے كہ كونسا بينك اچھا ہے اس پر بحثيں ہوتى ہيں، اور سب سے اچھى اور بہتر كونسى ہے.
اور اگر يہ لوگ اپنى حالت كے متعلق سوچيں اور اپنى كلام كى حقيقت كو پہچانيں تو انہيں علم ہو جائے كہ وہ تو ايسا كام كر رہے ہيں جو سود سے بھى زيادہ گناہ كا باعث ہے اور وہ اس كو كم سمجھنا، اللہ ہى مدد كرنے والا ہے.
دوم:
جس شخص كا آپ كے ليے رشتہ آيا ہے اس كے متعلق گزارش ہے كہ:
اگر تو اس كى حالت مختلف ہونے كى بنا پر اس كا معاملہ مختلف ہو سكتا ہے، كيا اس كا يہ سودى كاروبار شادى كے بعد بھى جارى رہے گا، يا كہ وہ نادم ہے اور اس سے توبہ كر ليگا ؟
اگر تو پہلى حالت ہے تو ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ اس كو بطور خاوند قبول مت كريں، كيونكہ وہ اپنے كبيرہ گناہ پر مصر ہے.
اور اگر اس كى دوسرى حالت ہے تو پھر اسے بطور خاوند قبول كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ اس كى سچى توبہ كرنے ميں اس كى معاونت و مدد كرنى واجب ہے تا كہ وہ اس سودى قرض سے چھٹكارا حاصل كر سكے، يا پھر اس سے چھٹكارا حاصل كرلے جس كے نتيجہ ميں زيادہ سود دينا پڑيگا.
ہمارى نصيحت ہے كہ آپ ايسے شخص كو قبول مت كريں جو سودى كاروبار كرتا ہے حتى كہ جب تك وہ اپنے اس حرام عمل سے توبہ كا اعلان نہيں كرتا.
واللہ اعلم.