سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قرآن کریم کی تحریف کا دعوی

  • 26752
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-23
  • مشاہدات : 15

سوال

میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ میرے اس اہم سوال کا جواب ضرور دیں ، میں انٹرنیٹ میں اسلام کے مخالف ایک صفحہ پڑھ رہا تھا جس میں ایک عیسائ یہ کہتا ہے کہ شیخ سجستانی نے اپنی کتاب " المصاحف " میں یہ کہا ہے کہ :حجاج نے قرآن مجید کے حروف میں تغیر تبدل کیاہے اور کم از کم دس کلمات ایسے ہیں جو کہ بدلے ہوۓ ہیں ۔ اور وہ یہ دعوی کرتا ہے کہ سجستانی نے ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام " ماغیرہ الحجاج فی مصحف عثمان " ( حجاج نے مصحف عثمان میں جو تبدیلی کی ) رکھاہے ۔ اور اس نصرانی نے یہ دعوی کیا ہے کہ اس نے ان دس کلمات کوجن میں تبدیلی کی گئ ہے وہ عربی میں ہیں انہیں جمع کیا ہے ۔ میں نے اس کتاب کا نسخہ تلاش کرنے کی کوشش کی لکین کامیاب نہیں ہوسکا تو میں آپ سے اس کی وضاحت چاہتا ہوں ، میں یہ خیال بھی نہیں کرسکتا کہ سب علماء کرام اور حفاظ کرام کسی شخص کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ قرآن مجید میں تبدیلی کرتا پھرے اور اسے وہ کچھ بھی نہ کہیں حتی کہ اگر سجستانی نے بھی اگر یہ روایت کی ہو ؟ یہ معاملہ تو کبھی بھی عقل میں بھی نہیں آسکتا اس لۓ کہ ہم یھودی اور عیسائیوں کی طرح نہیں کہ ہم اپنی کتاب کی حفاظت نہ کریں اور اسے صرف علماۓ دین کے حوالے کردیں ، مسلمانوں میں سے تو بہت سارے اس قرآن کو حفظ کۓ ہوۓ ہیں اورسب ہی اسے پڑھتے ہیں تو یہ کبھی ہوہی نہیں سکتا کہ کسی کو یہ فرق اور اختلاف نظر نہ آۓ ؟۔

الحمد للہ.

اول :

کسی بھی مسلمان کوقرآن مجید کے صحیح ہونے میں شک پیدا نہیں ہوسکتا ، اس لۓ کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایاہے :

بیشک ہم نے ہی قرآن مجید کونازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفا ظت کرنے والے ہیں  الحجر ( 9 ) ۔

خلیفہ اول ابوبکر الصدیق رضي اللہ تعالی عنہ کے دورتک قرآن مجید حفاظ صحابہ کرام کے سینوں میں اور درختوں کی چھال اورباریک پتھروں پر محفوظ تھا ۔

جب مرتدین سے جنگيں شروع ہوئیں اور ان لڑائيوں میں بہت زيادہ قرآن مجید کے حفاظ صحابہ کرام جام شھادت نوش کرنے لگے تو ابوبکر رضی اللہ تعالی کویہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں قرآن کریم ان صحابہ کے سینوں میں ہی دفن ہو کر ضائع نہ ہوجاۓ ، لھذا انہوں نے قرآن مجید کو ایک جگہ پرجمع کرنے کے لیے کبار صحابہ کرام سے مشورہ کیا تاکہ اسے ضائع ہونے سے محفوظ کیا جاسکے ، اور اس کام کی ذمہ داری حفظ کے عظیم پہاڑ زید بن ثابت رضي اللہ تعالی عنہ وغیرہ کے کندھوں پر ڈالی گئ ۔

امام بخاری رحمہ الباری نے اس کو بیان کرتے ہوۓ اپنی صحیح میں حدیث ( 4986 ) کا ذکرکچھ یوں کیا ہے :

زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ یمامہ کے بعد میری طرف پیغام بھیجا ( میں جب آیا تو ) عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے پاس دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ عمررضی اللہ تعالی میرے پاس آ کر کہنےلگے کہ جنگ یمامہ میں قرآء کرام کا قتل ( شہادتیں ) بہت بڑھ گیا ہے ، اور مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں دوسرے ملکوں میں بھی قرآء کرام کی شہادتیں نہ بڑھ جائيں جس بنا پر بہت سا قرآن ان کے سینوں میں ان کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا ، اور میری راۓ تو یہ ہے کہ آپ قرآن جمع کرنے کا حکم جاری کردیں ۔

تومیں نے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کہا کہ تم وہ کام کیسے کرو گے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟

تو عمر رضي اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا اللہ کی قسم یہ ایک خیر اور بھلائ ہے ، تو عمر رضی اللہ تعالی عنہ بار بارمیرے ساتھ یہ بات کرتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے اس بارہ میں میرا شرح صدرکردیا ، اور اب میری راۓ بھی وہی ہے جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے ۔

زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں کہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ تم ایک نوجوان اور عقل مند شخص ہو ہم آپ پر کوئ کسی قسم کی تہمت بھی نہیں لگاتے ، اور پھرتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی بھی رہے ہو ، تو تم قرآن کو تلاش کرکے جمع کرو ۔

زید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی قسم اگر وہ مجھے ایک جگہ سے دوسری جگہ کوئ پہاڑ منتقل کرنے کا مکلف کرتے تو مجھ پر وہ اتنا بھاری نہ ہوتا جتنا کہ قرآن کریم جمع کرنے کا کام بھاری اور مشکل تھا ، میں کہنے لگا تم وہ کام کیسے کروگے جو کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا ؟ وہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم یہ خیر اوربھلائ ہے ، تو ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ بار بار مجھ سے یہ کہتے رہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرا بھی شرح صدر کردیا جس طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا شرح صدر ہوا تھا ، تو میں قرآن کریم کو لوگوں کے سینوں اور چھال اور باریک پتھروں سے جمع کرنا شروع کردیا حتی کہ سورۃ التوبۃ کی آخری آیات ابو خزیمۃ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ کسی اور کس پاس نہ پائ  لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم ۔۔۔  ( تمہارے پا‎س ایسا رسول تشریف لایا ہے جو تم میں سے ہے جسے تمہارے نقصان کی بات نہایت گراں کزرتی ہے ۔۔ ) ۔

تو یہ مصحف ابوبکر رضي اللہ تعالی عنہ کی وفات تک ان کے پاس رہے پھر ان کے بعد تاحیات عمر رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس اور ان کے بعد حفصہ بنت عمررضی اللہ تعالی عنہما کے پاس رہے ۔

دوم :

حجاج نے خود تو قرآن مجید کو نہیں لکھا بلکہ اس نے کچھ ماہر اور ذھین علماء کو اس کا حکم ضرور دیا تھا ، ذیل میں اس کا مکمل واقع درج کیا جاتاہے۔

زرقانی کا قول ہے کہ :

یہ معروف ہے کہ مصحف عثمانی نقطوں کے بغیر تھا ۔۔۔۔ چاہے جو بات بھی ہو مشہور یہی ہے کہ قرآن مجید کے نقطوں کا آغاز عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں ہوا ہے اس لیے کہ جب اس نے یہ دیکھا کہ اسلام کی حدیں پھیل چکی اورعرب وعجم آپس میں گھل مل گۓ اور عجمیت عربی زبان کی سلامتی کے لۓ خطرہ بن رہی اور لوگوں کی اکثریت قرآن مجید کو پڑھنےمیں التباس اور اشکالات کا شکارہورہی ہے ، حتی کہ ان کی اکثریت قرآن مجید کے بغیر نقطوں والےحروف و کلمات کی پہچان میں مشکل کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں ۔

تو اس وقت اس نے اپنی باریک بینی اوردوراندیشی سے کام لیتے ہوۓ اس مشکل اور اشکا لات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہوۓ حجاج بن یوسف کو یہ معاملہ سونپا کہ اس کوحل کرے ، حجاج بن یوسف نے امیر المومنین کی اطاعت کرتے ہوۓ اس مشکل کو حل کرنے کے لۓ دوآدمیوں کوچنا اور یہ ذمہ داری نصربن عاصم اللیثی اور یحیی بن یعمر العدوائ جو عالم بامل اور زھدورع اور عربی زبان کے اصول وقواعدمیں ید طولی رکھنے کی بنا پر اس اہم کام کی اہلیت رکھتے تھے ، اوروہ دونوں قرآت میں اچھا خاصہ تجربہ رکھنے کے ساتھ ساتھ ابوالاسود الدولی کے شاگرد بھی تھے ۔

اللہ تعالی ان دونوں علم کے عظیم سپوتوں پر اپنی رحمت برساۓ یہ دونوں اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوۓ اور قرآن مجید کے حروف کلمات پرنقطے لگاۓ اوراس میں اس کا خاص طور پر خیال رکھا گیا کہ کسی حرف پر بھی تین سے زیاد نقطے نہ ہوں ۔

بعد میں لوگوں میں یہ چیز عام ہوئ جس کا قرآن مجید کے پڑھنے میں پیدا شدہ اشکالات اور التباس کے ازالہ میں اثر عظيم پایا جاتا ہے ۔

اور یہ بھی کہا جاتا ہےکہ مصحف پرنقطے لگانے والا سب سے پہلا شخص ابوالاسود الدؤلی ہے ، اور ابن سیرین کے پاس وہ مصحف موجود تھا جس پر یحیی بن یعمر نے نقطے لگاۓ تھے ۔

تو ان اقوال کے درمیان تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ انفرادی طور پر تو ابوالاسود الد‎ؤلی نے ہی نقطے لگاۓ لیکن عمومی اور رسمی طور پر نقطے لگانے والا شخص عبدالملک بن مروان ہے اور یہی وہ مصحف ہے جو کہ لوگوں کے درمیان عام مشہور ہوا اور تاکہ قرآن مجید میں التباس اوراشکالات کا خاتمہ ہوسکے ۔ مناھل القرآن ( 1 / 280-281 )

سوم :

اورسوال میں جو یہ ذکر کیا گياہے کہ ابوداود السجستانی نے اپنی کتاب " المصاحف " میں ایک روایت نقل کی ہے ذیل میں ہم اس روایت اور اس پر حکم کومکمل طورپر ذکر کرتے ہیں :

عن عباد بن صھیب عن عوف بن ابی جمیلۃ ان الحجاج بن یوسف غیر فی مصحف عثمان احد عشر حرفا ۔۔۔ الخ

عباد بن صھیب عوف بن ابی جمیلہ سے بیان کرتے ہیں حجاج بن یوسف نے مصحف عثمانی میں گیارہ حرف تبدیل کيے :

سورۃ البقرۃ میں آيت نمبر ( 259 )  لم یتسن وانظرھا  کے بغیر تھی تو اسے بدل کر لم یتسنہ کردیا ۔

سورۃ المائدۃ میں آيت نمبر ( 48 )  شریعۃ ومنھاجا  تھی تو اسے بدل کر شرعۃ ومنھاجا  کردیا ۔

سورۃ یونس میں آيت نمبر ( 22 )  ھوالذی ینشرکم  تھی تو اسے بدل کر یسیرکم  کردیا ۔

سورۃ یوسف میں آيت نمبر ( 45 )  انا آتیکم بتاویلہ  تھی تو اسے بدل کر انا انبئکم بتاویلہ  کردیا ۔

سورۃ الزخرف میں آيت نمبر ( 32 )  نحن قسمنا بینھم معایشھم  تھی تو اسے بدل کر معیشتھم  کردیا ۔

سورۃ التکویر میں آيت نمبر ( 24 )  وما ھو علی الغیب بظنین  تھی تو اسے بدل کر بضنین ۔۔  کردیا ۔ الخ ۔۔۔۔ کتاب " المصاحف " ( ص 49 ) ۔

تو یہ روایت عباد بن صھیب کے متروک الحدیث ہونے کی بنا پربہت ہی کمزوراور ضعیف یا پھر موضوع ہے ۔

علی بن مدینی رحمہ اللہ تعالی نے اس کے متعلق " ذھب حدیثہ " کہا ہے اور امام بخاری اور امام نسائ رحمہما اللہ تعالی نے اسے متروک قرار دیا ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ یہ قدری عقیدہ کا داعی تھا لیکن اس کے باوجود ایسی روایات بیان کرتا ہے جسے مبتدی شخص بھی سن لےتو وہ یہی کہےگا کہ یہ موضوع ہے اور امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی کا بیان ہے یہ متروکین میں سے ہے ۔

دیکھیں میزان الاعتدال للذھبی ( 4 / 28 ) ۔

اس روایت کا متن منکر اور باطل ہے اس لۓ کہ یہ بات تو عقل بھی ماننے سے قاصرہے کہ پوری دنیا میں قرآن مجید کے سب نسخوں میں اس طرح کا تغیروتبدل ہوجاۓ ، بلکہ بعض غیرمسلم لوگوں جیسا کہ رافضی شیعۃ وغیرہ تو اس کے متن کا انکار کرتے ہوۓ اس پر تنقید کرتےہیں کہ قرآن مجید ناقص ہے مکمل نہیں :

خوئ جو کہ رافضی ہے کا کہنا ہے کہ : یہ دعوی تو بہکے ہوۓ اورمجنون لوگوں اور بچوں کی خرافات وبہکی ہوئ باتوں کے مشابہ ہے ، حجاج تو بنوامیہ کا ایک گورنروکارندہ تھا ، اس میں تو اتنی ھمت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم میں کچھ کرسکتا ، بلکہ وہ تو اس سے بھی عاجزتھاکہ فروعات اسلامیہ میں کوئ‏ تغیروتبدل کرسکے تو یہ کیسے ہو سکتا کہ وہ اساس دین اور ستون شریعت میں تبدیلی کرسکے ؟

اور پھر اس کو سب اسلامی ممالک میں تو سلطہ و غلبہ حاصل نہیں تھا حالانکہ قرآن مجید ان سب ممالک میں پھیلا ہواتھا کہ وہ یہ کام کرسکے ؟

اور پھر اس چیزکے اتنی اھمیت کی حامل ہونے کےباوجود خطیب عظیم نے اپنی تاریخ میں کیوں نہیں ذکر کیا ، اور نہ ہی کسی ناقد نے اس پر تنقیدوجرح کی ہے ، اور پھر اس وقت کسی بھی مسلمان نے اس کی مخالفت کیوں نقل نہیں کی ؟ اور پھر حجاج کا دور اور طاقت ختم ہونے کےبعد مسلمانوں نے اس سے کس طرح چشم پوشی کیے رکھی ؟

اور بالفرض یہ مان بھی لیا جاۓ کہ حجاج نے پووی دنیا میں دور دراز تک پھیلے ہوۓ مصحف کے تمام نسخوں میں یہ کام کردیا اور کوئ ایک بھی نہ بچا توکیا یہ ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں اور حافظوں کے سینوں سے بھی زائل کر دیا ہو جن کی تعداد اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے علم میں نہیں ۔

البیان فی تفسیر القرآن ( ص 219 )

اور سائل کا یہ کہنا کہ " ماغیرہ الحجاج فی مصحف عثمان " کے نام سے امام ابوداود السجستانی نے ایک کتاب لکھی یہ بات قطعی طورپر صحیح نہیں بلکہ یہ واضح طور پر کذب بیانی ہے ، امام سجستانی نے تو صرف مندرجہ بالا حجاج کے عمل والی روایت کا یہ کہ کر باب باندھا ہے ( باب ماکتب الحجاج بن یوسف فی المصحف ) حجاج بن یوسف نے مصحف میں جو کچھ لکھا اس کے متعلق بیان ۔

تو اس بنا پریہ روایت کسی بھی حالت میں قابل اعتماد نہیں ، اس کے پایہ ثبوت تک نہ پہنچنے اور جھوٹا ہونے میں صرف اتنی بات ہی کافی ہے کہ ابھی تک کوئ شخص اس میں ایک حرف کا بھی ردوبدل کرنے میں کا میابی حاصل نہیں کرسکا ۔

اور اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس میں تکرار ہوتا اور پھر خاص کر ان ادوار میں جب کہ مسلمان بہت ہی کمزور تھے اور دشمنان اسلام کی سازشیں عروج پرتھیں ، بلکہ اس طرح کہ شبھات تو اس دعووں کی باطل ہونے کی دلیل ہیں اور یہ کہ دشمنان اسلام قرآن مجید کے چیلنج اور اس کے دلائل کا جواب دینے سے عاجزآگۓ تو انہوں نے اس میں طعن کرنا شروع کردیا ۔

واللہ تعالی اعلم .

تبصرے