الحمد للہ.
ہم اللہ تعالی کے ثناء خواں ہیں کہ اس نے آپ کے لۓ بھلائی کو محبوب بنایا ہے اور اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کے ایمان وہدایت میں مزید اضافہ فرمآئے اور آپ کے والدین کو اسلام قبول کرنے اور اس کے احکام کو ماننے کی نعمت سے نوازے ( آمین )
اس کے بعد جہاں تک قرآن مجید کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی کتاب ہے ؟ یہ وہ شبہ ہے جسے پہلے کافروں نے عناد و تکبر کی وجہ سے پیش کیا تھا جس کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا گیا تھا تو اللہ ذوالجلال نے ان کی اس بات کو بہت ساری دلیلوں سے رد کر دیا جو ان کے قول کو باطل کرتی ہیں اور اس کے فساد کو بیان کرتی ہیں ان میں بعض یہ ہیں ۔
1- بلاشبہ اللہ ذوالجلال نے اس قرآن سے جنوں اور انسانوں کو چیلنج کیا کہ اس جیسا بنا کر لے آئیں لیکن وہ عاجز آگۓ پھر چیلنج فرمایا کہ صرف دس سورتیں لے آؤ پھر بھی نہ لا سکے پھر چیلنج کیا کہ وہ قرآن کی چھوٹی سی سورۃ کی مثل بنا کر لے آئیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے اس کے باوجود کہ جن کو چیلنج کیا وہ کائنات کے بلیغ ترین اور فصیح ترین لوگ تھے اور قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا تھا ان سب کے ہوتے ہوئےانہوں نے مکمل عاجزی کا اظہار کیا اور یہ چیلنج آج تک باقی رہا مخلوق میں سے کوئی فرد بھی اس جیسا قرآن مجید نہ لا سکا اور اگر یہ بشر کی کلام ہوتی تو مخلوق میں سے کچھ لوگ اس کو قبول کر لیتے اس چیلنج پر قرآن کی بہت سی دلیلیں ہیں ۔
اس سلسلے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے :
( کہہ دیجۓ کہ اگر تمام انسان اور جن مل کر اس قرآن کی مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ ( آپس میں ) ایک دوسرے کے مدد گار بھی بن جائیں ) الاسراء 88
اللہ تعالی دس سورتوں کا چیلنج کرتے ہوئےفرماتے ہیں :
( کیا یہ کہتے کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے جواب دیجۓ کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو) ھود 13
اللہ تعالی ایک سورت کا چیلنج کرتے ہوئےفرماتے ہیں ۔
( ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو اس جیسی ایک سورت تو بنا لاؤ تمہیں اختیار ہے کہ اللہ تعالی کے سوا اپنے مدد گاروں کو بھی بلا لو ) البقرہ 23
2- بے شک آدمی علم وفہم کے جس درجہ تک بھی پہنچ جائے لازمی طور پر اس سے غلطی، سہو اور نقص واقع ہو جاتا ہے – اگر قرآن مجید اللہ تعالی کا کلام نہ ہوتا تو اس میں کئ قسم کے نقص اور اختلاف پائے جاتے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
( اگر یہ اللہ تعالی کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے ) لیکن وہ ہر قسم کے نقص و غلطی اور تعارض سے پاک ہے بلکہ تمام کا تمام، توانائی ، رحمت اور عدل ہے جس نے یہ گمان کیا کہ اس میں تعارض ہے تو یہ بیمار عقل اور غلط فہم کا نتیجہ ہے اگر وہ اہل علم کی طرف رجوع کرے تووہ درست چیز بیان کریں گے اور اس کے اشکال کو دور کریں گے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان :
( جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود کفر کیا ( وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ) یہ بڑی باوقعت کتاب ہے جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے یہ نازل کردہ حکمتوں والے ( اللہ ) کی طرف سے ہے ) حم السجدہ 41 ۔42
3- یقینا اللہ تعالی نے اس قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ،
جیسا کہ فرماتے ہیں :
( بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ) الحجر 9
تاریخ شاہد ہے کہ اس کے ہر ہر حرف کو ہزاروں سے ہزاروں آدمی نقل کرتے ہیں لیکن ایک حرف میں بھی اختلاف نہیں ہے ، اگر کوئی شخص اس میں تحریف یا کمی بیشی کی کوشش کرتا بھی ہے تو وہ اسی وقت رسوا ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے قران کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے ۔ بخلاف دوسری کتابوں کے جن کو اللہ ذوالجلال نے صرف ایک نبی کی قوم کی طرف نازل کیا ساری مخلوق کی طرف نہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی بلکہ ان کے بہت سارے معانی میں تحریف اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے جب کہ قرآن کو زمانہ کی وسعت کے ساتھ تمام مخلوق کی طرف نازل فرمایا کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت آخری رسالت ہے پس قرآن مجید سینوں اور سطروں میں محفوظ ہو گیا ہے اور تاریخ کے حوادثات اس کو ثابت کر رہے ہیں ۔
کتنے ہی ایسے شخص ہیں جنہوں نے قرآن مجید کی آیات میں تحریف کر کے مسلمانوں کے ہاں رائج کرنے کی کوشش کی لیکن بہت جلد اس کا عیب واضح ہو گیا حتی کہ مسلمان بچوں کے ہاتھوں اس کا کھوکھلا پن ظاہر ہو گیا ۔
جو چیز قطعی طور پر دلالت کرتی ہے کہ یہ قرآن مجید صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ سبحانہ وتعالی کی طرف سے ہے وہ وحی ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے اتاری گئي ہے ۔
4- قرآن بہت بڑا معجزہ ہے تشریعات، احکام ، قصص ، اور عقائد میں، قرآن اس پر مشتمل ہے جو کسی مخلوق سے صادر ہونا ناممکن ہے خواہ وہ عقل وفہم کے جس درجہ کو بھی پہنچ جائے ، لوگ اپنی زندگی کو منظم بنانے کے لۓ جتنے قوانین وضوابط بنانے کی کوشش کر لیں یہ قوانین کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک کہ قرآنی توجیہات سے دور ہیں جس قدر یہ دوری ہو گی اسی قدر ناکامی ہو گی یہ کفار نے خود ثابت کر دیا ہے ۔
5- ماضی اور مستقبل کے غیبی امور کی خبر دینا جو ایک بشر کے بس کی بات نہیں خواہ علم کے جس درجہ کو بھی پہنچ جائے خاص طور پر اس زمانہ میں جسے ٹیکنیکل اور نۓ آلات کے لحاظ سے ابتدائی دور سمجھا جاتا ہے ،
بہت ساری چیزوں کا انکشاف ایک طویل اور مشکل تجربہ کے بعد جدید آلات کے تعاون سے ہوا جب کہ اللہ تعالی نے اس کے بارے میں قرآن میں خبر دے دی۔