سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قرآن کریم سے تعلق رکھنے والے کا مقام و مرتبہ

  • 26706
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-21
  • مشاہدات : 17

سوال

درج ذیل بات کیا ٹھیک ہے؟ کیا سلف صالحین میں سے کسی نے یہ بات کہی ہے؟ میری مراد یہ جملہ ہے: "قرآن کریم مکہ میں نازل ہوا تو مکہ مکرمہ تمام شہروں سے افضل بن گیا، ماہ رمضان میں نازل ہوا تو یہ مہینہ سب مہینوں کا سردار بن گیا، لیلۃ القدر میں نازل ہوا تو یہ رات بھی ہزار مہینوں سے افضل بن گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا تو آپ انبیائے کرام کے سربراہ بن گئے، قرآن کو جبریل امین لے کر آئے تو فرشتوں کے سردار بن گئے" تو کیا واقعی ان تمام چیزوں کو فضیلت قرآن کریم کی وجہ سے ملی ہے؟

الحمد للہ.

اللہ تعالی نے قرآن کریم کے متعدد اوصاف ذکر کیے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہ قرآن کریم انتہائی معزز کتاب ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

  إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالذِّكْرِ لَمَّا جَاءَهُمْ وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ * لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ 
ترجمہ: ذکر آ جانے کے بعد کافروں نے قرآن کریم کا انکار کر دیا؛ حالانکہ یہ انتہائی معزز کتاب ہے، باطل امور قرآن کریم کو آگے، یا پیچھے کہیں سے بھی زیر نہیں کر سکتے؛ یہ تو حکمت والی اور لائق حمد ذات کی جانب سے نازل کردہ ہے۔[فصلت: 41 - 42]

اسی طرح قرآن کریم کی قسم اٹھاتے ہوئے فرمایا:   وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ  
ترجمہ: قسم ہے عالی شان قرآن کریم کی۔[ق: 1]

اللہ تعالی نے اس کے علاوہ بھی بہت سے قرآن کریم کے اوصاف ذکر کیے ہیں۔

قرآن کریم کو مضبوطی سے تھامنے کی وجہ سے لوگوں کو عزت، رفعت اور بلندی عطا ہوتی ہے، جیسے کہ صحیح مسلم: (817) میں سیدنا عمر بن واثلہ سےمروی ہے کہ : "نافع بن عبد الحارث جناب عمر رضی اللہ عنہ کو عسفان جگہ پر ملے -سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مکہ میں اپنا گورنر مقرر کیا ہوا تھا- آپ نے نافع سے پوچھا کہ اپنا نائب کسے مقرر کر کے آئے ہو؟
انہوں نے کہا: ابن ابزی کو مقرر کیا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ ابن ابزی کون ہے؟
نافع نے کہا: ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔
اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تعجب سے پوچھا: آزاد کردہ غلام کو تم نے اہل مکہ پر اپنا نائب مقرر کر دیا؟
نافع نے جواب دیا [انہیں اپنا نائب بنانے کی وجہ یہ ہے کہ] وہ قرآن کریم کے عالم ہیں اور علم وراثت کے ماہر ہیں۔
پھر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہارے نبی نے فرمایا ہے کہ: اللہ تعالی اس قرآن کریم کی بدولت کچھ اقوام کو بلندیاں عطا کرتا ہے اور کچھ کو سرنگوں کر دیتا ہے۔ "

غرضیکہ کہ قرآن کریم سے تعلق شرف اور رفعت کی بات ہے، چاہے یہ تعلق کسی بھی انداز سے ہو، چاہے قرآنی خطاطی، رسم قرآنی، ادائیگی، حفظ، تلاوت، علم اور عمل کسی بھی انداز سے ہو یہ سب ہی قرآن کریم سے تعلق کے مختلف انداز ہیں۔ قرآن کریم کے ساتھ اپنا وقت گزارنے والا شخص انتہائی معزز انسان ہے، اسی کی وجہ سے اسے دنیا و آخرت میں بلندی حاصل ہوتی ہے، اور یہ بلندی اتنی ہی ملے گی جس قدر اس کا قرآن کریم سے تعلق ہو گا، اللہ تعالی نے ہر چیز کی مقدار لکھ دی ہے۔

چنانچہ ہمیں اس بات میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کا مکہ مکرمہ میں نزول مکہ مکرمہ کی منزلت بلند ہونے کا باعث ہو، اسی طرح ماہ رمضان میں نزولِ قرآن رمضان کی فضیلت کا باعث ہو، ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل پر نزول قرآن آپ کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے فضیلت کا باعث ہو، پھر رب العالمین کے ہاں آسمانوں سے قرآن کریم کو لانا سیدنا جبریل امین علیہ السلام کے لیے شرف کا باعث ہو؛ کیونکہ قرآن کریم افضل ترین کلام ہے ؛افضل ترین کلام کیوں نہ ہو یہ تو رب العالمین کا کلام ہے!!

تاہم یہ بات غلط ہو گی کہ: شرف حاصل کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے، یا صرف انہی چیزوں کو ہی شرف حاصل ہے، یا کسی بھی اور انداز سے حصولِ شرف کو محدود کیا جائے تو یہ درست نہ ہو گا؛ کیونکہ ایسی بات شرف عطا کرنے والی ذات یعنی اللہ تعالی کے بارے میں جہالت پر مبنی زبان درازی ہو گی، نیز یہ ایک ایسی بات ہو گی جس کا ہمیں مکلف نہیں بنایا گیا اور نہ ہی ہمیں ایسی بات کرنے کی ضرورت ہے۔

بلکہ یہ بھی غلط ہو گا کہ کوئی یہ سمجھے کہ نزولِ قرآن ہی مذکورہ اشیا کے شرف کا آغاز بنا۔

کیونکہ سیدنا جبریل علیہ السلام تمام فرشتوں میں افضل ترین فرشتے ہیں، اور نزول قرآن سے قبل بھی آپ اللہ تعالی کی جانب سے تمام رسولوں کی جانب پیغام بر کا فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔

اسی طرح مکہ مکرمہ اللہ تعالی کا انتہائی محترم شہر ہے، ان کے محترم بننے کی دعا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کی، چنانچہ مکہ مکرمہ کی فضیلت کا آغاز بھی نزول قرآن سے قبل ثابت شدہ ہے۔

اسی طرح جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی اللہ کے نبی ، اولاد آدم کے سربراہ اور خاتم النبیین اس وقت سے ہیں جب سیدنا آدم علیہ السلام کی مٹی نرم اور گندھی ہوئی تھی۔

چنانچہ زیادہ سے زیادہ انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ شرف و منزلت پانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان قرآن کریم سے اپنا تعلق مضبوط کرے، لہذا کوئی شخص جس انداز سے بھی اپنا تعلق قرآن کریم سے جوڑے گا جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے اسے شرف و منزلت حاصل ہو گی۔

واللہ اعلم

تبصرے