بعض لوگ ناواقف علم حدیث جن کو صحیح اور مقیم اور ضعیف اور موضوع اور غیر موضوع میں کچھ امتیاز نہیں ہے، مؤذن سے اشھد ان محمد رسول اللّٰہ کے سننے کے وقت انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگاتے ہیں، اور اس فعل کو چند احادیث کتب طبقہ رابعہ سے حجت لا کر سنت جانتے ہیں، اس باب میں کتب معتبرہ سے جو صاف صاف حکم ہو ارشاد فرما دیں۔
اس مقدمہ مذکور میں جتنی حدیثیں کہ مذکور ہیں، ان میں سے ایک بھی صحیح وثابت نہیں، اور نہ ان کا کسی معتمد کتاب میں پتہ و نشان پایا جاتا ہے، محققین و نقاد احادیث نے ان سب احادیث میں کلام کر کے تصریح غیر صحیح اور موضوع ہونے کی کر دی ہے، تفصیل اس اجمال اور تشریح اس مقال کی یہ ہے، کہ اول تو یہ سب حدیثیں کتب احادیث طبقہ رابعہ سے ہیں، اور اس طبقہ کی احادیث اس قابل نہیں ، کہ کسی عقیدہ اور عمل کے ثابت کرنے میں ان پر اعتماد کیا جاوے، اور ان کو متمسک بہ ٹھہرایا جاوے، چنانچہ مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ عجالہ نافعہ میں ارشاد فرماتے ہیں۔
چوتھے طبقے میں وہ حدیثیں ہیں جن کا پہلے زمانہ میں نام و نشان نہ تھا، اور متاخرین نے ان کو روایت کیا ہے، ان کا حال د وحیثیتوں سے خالی نہیں ہے، یا تو سلف نے ان کو پرکھا اور ان کا کوئی اصل نہ مل سکا، کہ ان کی روایت کرتے یا کوئی اصل تو تھا، لیکن ان میں سے اسے نقص دیکھے ان کو چھوڑ دینا ہی مناسب معلوم ہوا، بہرحال وہ حدیثیں کسی طرح بھی اس قابل نہ تھیں، کہ ان پر عقیدہ کی بنیاد رکھی جاتی۔
دوسرے یہ کہ علامہ شمس الدین ابو الخیر محمد بن وجیہ الدین عبد الرحمن سخاوی مقاصد حسنہ میں اور شیخ الاسلام مترجم بخاری اور حسن بن علی ہندی اور ابن ربیع شافیع اور زرقانی مالکی اور محمد طاہر قننی حنفی نے ان احادیث کو لا یصح لکھا ہے، اور لفظ لا یصح کا بمعنی ثابت نہ ہونے کے آتا ہے، چانچہ علامہ محمد طاہر پٹنی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے۔
قولنا لم یصح لا یلزم منہ اثبات العدم وانما ھو اخبار عن عدم الثبوت اتنہیٰ
ُُ’’یعنی قول ہمارا لا یصح نہیں لازم آتا ہے اس سے اثبات نہ ہونے کا، اور نہیں ہے وہ قول مگر خبر دیتا ہے نہ ثابت ہونے سے۔‘‘
اور شیخ الاسلام نے ترجمہ بخاری میں لکھا ہے، کہ
مسند فردوس میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے، کہ جب مؤذن اشہد ان محمدا رسول اللہ سنتے تو اپنی دونوںسبابہ انگلیوں کے پوروں کو چوم کر اپنی انگلیوں پر لگا لیتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی تیری طرح کرے گا اس کے لیے شفاعت واجب ہو جائے گی اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، کہ آپ نے فرمایا، جو آدمی مؤذن سے یہ کلمہ سن کر کہے مرحبا بحبیبی وقرۃ محمد بن عبد اللّٰہ اپنے انگوٹھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرے، تو وہ کبھی نابینا نہ ہو گا، اور نہ کبھی اس کی آنکھیں دکھیں گی، اور محدثین کے نزدیک یہ دونوں روایتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں۔
اور حسن بن علی ہندی صاحب سبیل الجنان نے تعلیقات مشکوٰۃ المصابیح میں لکھا ہے۔
کل ما روی فی وضع الابھا مین علی العینین عند سماع الشہادة من المؤذن لم یصح انتہیٰ
’’یعنی جو کچھ روایت کیا گیا ہے مؤذن سے رکھنے انگوٹھوں میں آنکھوں پر وقت سننے کلمہ شہادت کے ثابت نہیں ہوا۔‘‘
اور محمود احمد عینی نے عمدۃ القاری شرح بخاری میں بیچ باب ما یقول اذا سمع المنادی کے لکھا ہے۔
یجب علی السامعین ترك عمل غیر الاجابة انتہی ملخصا
’’یعنی اذان کے سننے والوں پر ہر کام چھوڑ دینا، اور جواب اذان دینا واجب ہے۔‘‘
اور یہ بھی شرح مذکور کے اسی باب میں لکھا ہے۔
ینبغی ان لا ینکلم السامع فی خلال الاذان والاقامة ولا یقرأ القران ولا یسلم ولا یرد السلام ولا یشغل بشئی من الاعمال سو الجابة انتہی
’’یعنی لائق یہ ہے، کہ نہ کلام کرے سننے والا درمیان اذان اور اقامۃ کے اور نہ پڑھے قرآن اور نہ سلام کرے، اور نہ جواب سلام کا دے اور نہ مشغول ہر ساتھ عمل کے سوا جواب اذان دینے کے۔‘‘
اور محمد یعقوب بننانی نے خیر جاری شرح صحیح بخاری میں بعد نقل عبارت عینی کے لکھا ہے۔
واعلم انہ یستفاد من کلام العنی المذکور منع وضع الابھامین علی العینین عنہ سماع اشہد ان محمدا رسول اللّٰہ
’’یعنی جان تو تحقیق مستفاد ہوتا ہے کلام عینی سے جو یہاں مذکور ہے منع ہونا رکھنے انگوٹھوں کا آنکھوں پر وقت سننے اشہد ان محمد رسول اللہ کے۔‘‘
اور علامہ ابو اسحاق بن عبد الجبار کابلی نے شرح رسالہ عبد السلام لاہوری میں لکھا ہے۔
قد تکلموا فی احادیث وضع الابھا مین علی العینین فلم یصح شئی منھا بروایة صعیفة ایضا صرح بعضم بوضع کلہا انتہیٰ
’’یعنی تحقیق کلام کیا ہے علمائے محدثین نے حدیثوں میں رکھنے انگوٹھوں کے آنکھوں پر، پس ثابت نہیں ہوا ہے کچھ ان میں سے ساتھ روایت ضعیفہ کے بھی، اور اسی واسطے تصریح کی ہے بعض محدثین نے ساتھ موضوع ہونے کل ان احادیث کے۔‘‘
چنانچہ امام ابو الحسن عبد الغافر فارسی صاحب مفہم شرح صحیح مسلم اور مجمع الغرائب نے کتاب اقوال الاکاذیب میں لکھا ہے، بعد نقل احادیث فردوس دیلمی کے جو اس باب میں وارد ہیں لکھا ہے ۔
والروایات فی ھذا الباب کثیرة لا اصل لھا بسند ضعیف ایضا وقال ابو نعیم الا صفہانی ما روی فی ذلك کلمہ موضوع انتہیٰ
’’یعنی روایات چومنے انگوٹھے اور ان کے آنکھوں پر رکھنے کی بہت ہیں، مگر نہیں ہے کچھ اصل ان کی سند ضعیف سے بھی۔ اور فرمایا ابو نعیم اصفہانی نے، کہ اس میں جو روایت کیا گیا، سب موضوع ہے۔‘‘
اور امام جلال الدین سیوطی نے کتاب تیسیر المقال میں لکھا ہے۔
والاحادیث التی رویت فی تقبیل الا نامل وجعلھا علی العینین عند سماع اسمہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المؤذن فی کلمة الشہادة کلہا موضوعات انتہیٰ
’’یعنی جو حدیثیں مؤذن سے کلمہ شہادت سننے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر انگلیاں چومنے، اور پھر ان کے آنکھوں پر پھیرنے کے بارہ میں روایت کی گئی ہیں، سب موضوع ہیں۔‘‘
اور ایسا ہی امام مذکور نے کتاب الدرۃ المنتشرۃ فی احادیث المنتشرۃ میں لکھا ہے،انتہیٰ ما فی بصارۃ العینین ملخصاً مختصراً۔
پس اس سبب سے معلوم ہوا۔ کہ علمائے محدثین معتبرین کے نزدیک فعل مذکو رثابت و صحیح نہیں ہوا اور کل احادیث جو اس باب میں مذکور ہیں۔ سب موضوع ہیں، اور فعل مذکور ہر گز ہر گز سنت و مستحب نہیں ہے، بلکہ بدعت و ممنوع ہے، چنانچہ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اپنے فتویٰ میں ارقام فرماتے ہیں۔
اذان کے وقت جواب کلمات اذان کے سوا اور کئی چیز ثابت نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سننے پر ان پر درود و سلام بھیجنے کے سوا اور کوئی چیز درست نہیں، اور یہ انگوٹھے چومنے کا عمل خلفائے راشدین کے زمانہ میں نہیں تھا پس بوقت اذان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سن کر ایسا کرنا سخت سنت اور مستحب نہیں ہے بلکہ بدعت ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے، اور فقہ کی بعض کتابوں میں جو اس کے جواز کے متعلق لکھا ہے وہ کتابیں معتبر نہیں۔ ۱۲ واللہ اعلم بالصواب
اور محدث لکھنوی مرزا حسن علی صاحب بھی اپنی فتویٰ میں اسی طرح لکھتے ہیں کہ، این عمل ممنوع است واز قبیل بدعت، وآنچہ درین باب حدیثے از جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در عمل کردن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نقل کنند موضوع است کذا ذکرہ الشیخ جلال الدین سیوطی وغیرہ من المحدثین و بحسب روایات فقہ معتبرہ ہم اصلا ثبوت ندارد انتہیٰ بلفظ ہکذافی بصارۃ العینین ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ (حررہ السید محمد نذیر حسین عفی عنہ، سید محمد نذیر حسین)