الحمد للہ.
سوال میں مذکور اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح مسلم:(2188) میں
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (نظر بد مؤثر ہے، اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آتی)
اور ترمذی : (2059) میں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : "اللہ کے رسول! جعفر کی اولاد کو نظر بہت جلدی لگتی ہے، تو کیا میں ان پر کسی سے دم کروا لوں؟" تو آپ نے فرمایا: ( ہاں، کیونکہ اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب ہوتی تو نظر بد ہوتی )
اس حدیث کو ابن عبد البر نے "الاستذکار"(7/409) میں صحیح قرار دیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے بھی "سلسلہ صحیحہ"(1252) میں اسے صحیح کہا ہے۔
اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ نظر بد تقدیر الہی سے متصادم ہے، بلکہ نظر بد بھی تقدیر میں شامل ہے، جو کچھ بھی لوگوں کو مصیبت یا آزمائش پہنچے تو وہ اللہ نے تقدیر میں پہلے سے لکھا ہوا ہے، لیکن حدیث میں نظر بد کے اثرات کو تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، تا کہ لوگوں کے دلوں میں نظر بد کے بارے میں شکوک و شبہات کا قلع قمع کیا جا سکے، چنانچہ اس حدیث میں نظر بد کے اثرات کو ثابت کیا گیا ہے، اور پھر اسکی تاکیدکے لئے نظر بد کی قوت وسرعتِ تاثیر کو مبالغانہ اسلوب میں پیش کیا گیا ہے، نیز اس میں یہ بات بھی ہے کہ نظرِ بد اللہ کی تقدیر میں شامل ہے۔
قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث: (اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آ جاتی) اس میں نظر بد کے مؤثر ہونے کا بیان ہے، اور تمثیلی انداز میں مبالغانہ اسلوب استعمال کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تقدیر کو کوئی چیز ٹال سکتی ہے؛ کیونکہ تقدیر مشیت الہی کے نفاذ سے متعلق اللہ تعالی کے پہلے سے موجود علم کا نام ہے، اور اللہ تعالی کی مشیت کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی، اور نہ ہی کوئی اللہ تعالی کے حکم کو چیلنج کر سکتا ہے، اس حدیث میں بات ایسے ہی بیان کی گئی ہے جیسے محاورے میں کہی جاتی ہے: "تم ثریا پر پہنچ جاؤ یا ثری میں دب جاؤ تلاش کر ہی لونگا" یا اسی طرح عام طور پر گفتگو کرتے ہوئے ایسی باتیں کی جاتیں ہیں جن کی حقیقت مقصود نہیں ہوتی" کچھ تبدیلی کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
"المفهم لما أشكل من تلخيص صحیح مسلم" (5/566)
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آ جاتی) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انسان کو وہی مصیبت پہنچتی ہے جو تقدیر میں لکھ دی گئی ہے، یہاں تک کہ نظر بد بھی تقدیر پر غالب نہیں آسکتی، کیونکہ یہ بھی تقدیر کا حصہ ہوتی ہے" انتہی
"التمهيد" (6/240)
ایک اور مقام پر ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: (اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آ جاتی) میں اس بات کی دلیل ہے کہ صحت و بیماری کے بارے میں اللہ تعالی خوب جانتا ہے، اور جس چیز کو اللہ تعالی جانتا ہے، وہ اسی طرح وقوع پذیر ہوگی جس طرح اللہ تعالی اسے جانتا ہے، حتی کہ اس کا وقت بھی تبدیل نہیں ہو سکتا، تاہم انسانی نفس علاج معالجہ، دوا، اور دم کا سہارا لیتا ہے، اور ان میں سے ہر چیز اللہ کی تقدیر اور علم کے باعث ہی شفا کا سبب بنتی ہے" انتہی
"الاستذكار" (8/403)
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حدیث مبارک: (اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آ جاتی) میں اس چیز کا بیان ہے کہ صرف وہی ہوگا جو اللہ تعالی نے تقدیر میں لکھ دیا ہے، اور نظر بد سمیت ہر چیز قضا و قدر کے بغیر نہیں ہو سکتی، تاہم اس حدیث میں نظر بد کے مؤثر ہونے اور شدید مرض کا باعث بننے کو درست کہا گیا ہے" انتہی
"إكمال المعلم" (7/85)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حدیث (اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آ جاتی) میں تقدیر کا اثبات ہے، تقدیر کے ثابت ہو نے پر کتاب و سنت، اور اہل السنہ کا اجماع بھی ہے، اور اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تمام کام اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق ہی ہوتے ہیں، چنانچہ کچھ بھی وقوع پذیر ہو وہ ایسے ہی ہوتا ہے جیسے اللہ تعالی نے اسے اپنے علم کے مطابق تقدیر میں لکھا ہے، لہذا نظر بد یا کسی اور چیز سے نقصان ، یا دیگر اشیاء سے فائدہ اللہ تعالی کے فیصلے سے ہی ہوتا ہے" انتہی
"شرح مسلم" (14/174)
ابو ولید الباجی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" حدیث (اگر کوئی چیز تقدیر پر غالب آسکتی تو نظر بد غالب آ جاتی) کا تقاضا تو یہ ہے کہ تقدیر پر کوئی چیز بھی غالب نہیں آسکتی۔۔۔ تاہم نظرِ بد کے اثرات بالکل واضح اور عیاں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات نظر بد کے بارے میں بطورِ مبالغہ فرمائی " انتہی
"المنتقى شرح الموطأ" (7/258)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں نظر بد کے اثرات کو ثابت کرنے کیلئے اسلوبِ مبالغہ اختیار کیا گیا ہے، لہذا اسکا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تقدیر کو کوئی چیز ٹال سکتی ہے، کیونکہ تقدیر مشیت الہی کے نفاذ سے متعلق اللہ تعالی کے پہلے سے موجود علم کا نام ہے، اور اللہ تعالی کی مشیت کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی ، اس بات کی طرف قرطبی رحمہ اللہ نے اشارہ بھی کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اگر فرض کر لیا جائے کہ کسی چیز میں اتنی قوت ہے کہ وہ تقدیر پر بھی حاوی ہو سکتی ہے، تو وہ چیز نظرِ بد ہوتی، لیکن نظر بد بھی تقدیر پر غالب نہیں آسکتی، تو نظر بد کے علاوہ کیسے تقدیر پر غالب آسکتی ہیں؟!" انتہی
"فتح الباری" (10/203-204)
واللہ اعلم.