الحمد للہ.
کافر کے کفر کی وجہ سے کسی بھی صورت میں عذاب میں تخفیف نہیں کی جائے گی یہ بات قرآن کریم کی متعدد آیات میں موجود ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا
ترجمہ: اور کفر کرنے والوں کے لیے جہنم کی آگ ہے، نہ ان کا کام تمام کیا جائے گا کہ وہ مر جائیں اور نہ ان سے جہنم کا عذاب ہلکا کیا جائے گا۔ [فاطر:36]
اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْماً مِنَ الْعَذَابِ [49] قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا بَلَى قَالُوا فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلالٍ
ترجمہ: اور وہ لوگ جو آگ میں ہوں گے جہنم کے نگرانوں سے کہیں گے اپنے رب سے دعا کرو، وہ ہم سے ایک دن کچھ عذاب ہلکا کر دے۔ [49] وہ کہیں گے اور کیا تمہارے پاس تمہارے رسول واضح دلیلیں لے کر نہیں آیا کرتے تھے ؟ کہیں گے کیوں نہیں، وہ کہیں گے پھر دعا کرو اور کافروں کی دعا تو بالکل ہی بے کار ہے۔ [غافر:49-50]
البتہ کافر کے اچھے اعمال کا بدلہ کافر کو دنیا میں ہی رزق، اولاد، اور دیگر نعمتوں کی صورت میں دے دیا جاتا ہے، چنانچہ کفار کو ان کے اعمال کا اچھا بدلہ دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے، جبکہ آخرت میں ان کی نیکیوں میں سے کچھ بھی باقی نہیں رکھا جاتا؛ کیونکہ کفر کی وجہ سے ان کی تمام تر نیکیاں اکارت ہو جاتی ہیں، کفر کے ہوتے ہوئے کوئی بھی نیک عمل انسان کے لیے مفید نہیں رہتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ کافروں کو جہنم میں ملنے والا عذاب ان کے دنیاوی جرائم کے اعتبار سے مختلف ہو گا، لیکن سب کے سب ہمیشہ کے لیے جہنم میں ہی رہیں گے؛ چنانچہ فرمان باری تعالی ہے:
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
ترجمہ: اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا۔ [الفرقان:23]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابن جدعان دورِ جاہلیت میں صلہ رحمی کرتا تھا، مساکین کو کھانا کھلاتا تھا، تو کیا اس کے ان کاموں کا کوئی فائدہ ہو گا؟، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسے ان کاموں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا کہ: پروردگار! بدلے کے دن میرے گناہ معاف فرما دینا) " مسلم: (214)
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دایہ ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے عذاب کی تخفیف کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے وہ نہ تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے، نہ ہی صحابہ کرام کی بات ہے، وہ تو ابو لہب کے گھر والوں میں سے کسی نے خواب میں دیکھا تھا، اور ایسا خواب اِس اصول [یعنی دنیا میں ہی کافر کی نیکیاں کالعدم ہو جاتی ہیں؛] سے متصادم ہونے کے قابل نہیں ہو سکتا، اور اللہ تعالی کے ہاں اسے اِن نیکیوں کا کچھ بدلہ نہیں ملتا؛ یہ اصول ہم مندرجہ بالا گفتگو میں بیان کر چکے ہیں، مزید برآں یہ بھی کہ یہ خواب مرسل سند کے ساتھ منقول ہے۔
جیسے کہ بخاری: (5101) میں عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کا درج ذیل قول ہے:
"ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی، ابو لہب نے سے آزاد کر دیا تھا، پھر اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دودھ پلایا، جب ابو لہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی نے اسے بہت بری حالت میں دیکھا، تو پوچھا: تمہیں کوئی خیر ملی؟ تو ابو لہب نے کہا: تمہارے بعد مجھے کوئی خیر نہیں ملی، ہاں مجھے ثویبہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے یہاں سے کچھ پلا دیا جاتا ہے"
ابن حجر رحمہ اللہ اس بات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا ذکر ابن مندہ نے اپنی کتاب "الصحابہ" میں کیا ہے، ساتھ میں یہ بھی کہا ہے کہ اس کے مسلمان ہونے کے بارے میں اختلاف کیا گیا ہے۔
ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: ہمیں کسی مؤرخ کے بارے میں علم نہیں ہے جنہوں نے ان کے مسلمان ہونے کا تذکرہ کیا ہو، تاہم سیرت کی کتابوں میں یہ ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا بہت احترام کیا کرتے تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بعد آپ کے پاس آیا کرتی تھی، بلکہ خیبر فتح ہونے تک مدینہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ثویبہ کے لیے تحائف ارسال فرماتے رہے، فتح خیبر کے بعد وہ خود بھی فوت ہو گئیں اور ان کا بیٹا مسروح بھی فوت ہو گیا۔
عروہ کا قول: " ثویبہ ابو لہب کی لونڈی تھی، ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا تھا، پھر اس نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دودھ پلایا " اس سے معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ آزادی کا معاملہ دودھ پلانے سے پہلے کا ہے، جبکہ سیرت کی کتابوں میں اس سے الٹ بات ہے کہ ابو لہب نے ثویبہ کو ہجرت سے قبل تاہم دودھ پلانے سے کافی عرصے بعد آزاد کیا تھا۔
جبکہ علامہ سُھیلی نے نقل کیا ہے کہ ثویبہ کی آزادی رضاعت سے قبل تھی ، میں ان کی گفتگو بھی ذکر کروں گا۔
عروہ کا قول: { بَعْضُ أَهْلِهِ} تو اس بارے میں سھیلی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ابو لہب مر گیا تو ایک سال کے بعد اسے خواب میں بہت بری حالت میں دیکھا ، اور کہنے لگا: تمہارے بعد مجھے کبھی سکون نہیں ملا ؛ ہاں اتنا ہے کہ ہر سوموار کو مجھ سے عذاب ہلکا کر دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بتلاتے ہوئے کہا کہ: کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سوموار کو پیدا ہوئے تھے تو ثویبہ نے ابو لہب کو آپ کی پیدائش کی خبر دی تھی، جس پر ابو لہب نے اسے آزاد کر دیا۔
اس اثر کے عربی الفاظ: { لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ , غَيْرَ أَنِّي} تمام بنیادی قلمی نسخوں میں { لَمْ أَلْقَ } فعل کا مفعول محذوف ہی ہے، جبکہ اسماعیلی کی روایت میں وضاحت ہے کہ: { لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ رَخَاءً} یعنی تمہارے بعد مجھے سکون نہیں ملا۔ تاہم مصنف عبد الرزاق میں معمر عن زہری کی سند سے ہے کہ: { لَمْ أَلْقَ بَعْدَكُمْ رَاحَةً} یعنی تمہارے بعد مجھے راحت نہیں ملی۔ چنانچہ ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ: بخاری کی روایت میں فعل کا مفعول ساقط ہو گیا ہے، اور مفعول کے بغیر کلام صحیح نہیں ہو سکتا۔
اس اثر کے عربی الفاظ { غَيْرَ أَنِّيْ سُقِيْتُ فِيْ هَذِهِ} کی بھی تمام بنیادی قلمی نسخوں میں عبارت محذوف ہے، اور مصنف عبد الرزاق کی مذکورہ روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ: ابو لہب نے اپنے انگوٹھے کے نیچے سوراخ کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے پانی کی معمولی مقدار کی طرف اشارہ ہے۔
اس اثر میں اس چیز کی دلیل ہے کہ بسا اوقات کافر کو آخرت میں اچھے کاموں کا فائدہ ہو سکتا ہے؛ تاہم یہ بات قرآن کریم کے واضح احکامات کے بالکل مخالف ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا
ترجمہ: اور انہوں نے جو جو اعمال کیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا۔ [الفرقان:23]
نیز اس بات کے دیگر اور بھی جوابات دئیے گئے ہیں کہ:
سب سے پہلے تو یہ روایت ہی مرسل ہے، چنانچہ عروہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے، اور یہ نہیں بتلایا کہ انہیں یہ بات کس نے بتلائی؟ تاہم اگر اس کو متصل مان بھی لیں تو اس روایت میں کسی کا خواب ذکر کیا گیا ہے، اور خواب دلیل نہیں بنتا، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ خواب دیکھنے والا ابھی مسلمان ہی نہ ہوا ہو تو کسی غیر مسلم کے خواب سے ویسے ہی دلیل اخذ نہیں کی جا سکتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ: اگر اس روایت کو قبول کر بھی لیا جائے تو پھر یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خاص ہو گا، اس کی ایک اور مثال ابو طالب کے واقعہ سے بھی ملتی ہے کہ جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ ابو طالب کو انتہائی شدید عذاب کی جگہ سے ہلکے عذاب کی جگہ پر منتقل کر دیا گیا۔
نیز امام بیہقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
جن نصوص میں یہ آتا ہے کہ کافروں کو آخرت میں کسی قسم کی خیر نہیں ملے گی، ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ کبھی بھی جہنم سے خلاصی نہیں پا سکیں گے اور نہ ہی جنت میں داخل ہو سکیں گے، تاہم یہ ممکن ہے کہ ان کے رفاہی کاموں کی وجہ سے ان کے کفر کے علاوہ دیگر جرائم کی سزا میں تخفیف کر دی جائے ۔
جبکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ کافروں کو ان کے نیک اعمال فائدہ نہیں دیں گے، نہ ہی انہیں نعمتوں کی صورت میں یا عذاب میں تخفیف کی صورت میں انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا؛ البتہ یہ ضرور ہو گا کہ کافروں کا عذاب یکساں نہیں ہو گا، بلکہ اس میں بھی درجہ بندی ہو گی۔
میں [حافظ ابن حجرؒ] کہتا ہوں کہ: قاضی عیاضؒ کا موقف امام بیہقیؒ کے بیان کردہ احتمال کو ختم نہیں کر سکتا ؛ کیونکہ قاضی عیاض کے موقف میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ کفر کے بارے میں ہے، جبکہ کفر کے علاوہ گناہوں کی تخفیف میں کوئی چیز مانع نہیں ہے؟
اسی لیے امام قرطبی کہتے ہیں کہ:
یہ تخفیف ایسے شخص کے بارے میں خاص ہے جس کے متعلق نص موجود ہے۔
جبکہ ابن المنیرؒ اپنے حاشیہ میں کہتے ہیں:
یہاں پر دو امور زیر بحث ہیں:
ایک یہ معاملہ کہ: کفر کے ہوتے ہوئے کافر کی نیکی کا اعتبار کیا جائے؛ کیونکہ نیکی کی بنیادی شرط یہ ہے کہ صحیح نیت اور ارادے سے نیکی کی جائے، اور یہ نیت کافر کی جانب سے صحیح ہو ہی نہیں سکتی۔
دوسرا معاملہ یہ ہے کہ: کافر کے بعض اعمال کے عوض اللہ تعالی کسی کافر کو اپنے خصوصی فضل کی بدولت کچھ ثواب دے دے، عقلی طور پر یہ محال نہیں ہے، چنانچہ جب یہ تفصیل ذہن نشین ہو جائے تو ابو لہب کا ثویبہ کو آزاد کر دینا کوئی قابل اعتبار نیکی نہیں تھی، تاہم یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی اپنے خصوصی فضل سے جس کو چاہے نواز دے، جیسے کہ ابو طالب پر اللہ تعالی نے خصوصی کرم فرمایا۔ بہ ہر حال ایسے معاملات میں نفی کرنی ہو یا اثبات ہر دو صورت میں معاملہ خالصتاً توقیفی ہے۔
میں [حافظ ابن حجرؒ] کہتا ہوں کہ:
اس ساری مبحث کا آخر خلاصہ یہی ہے کہ: اللہ تعالی کا مذکورہ فضل ایسے کافر کے بارے میں بطور اکرام رونما ہو سکتا ہے جس نے کبھی کوئی نیکی وغیرہ کی ہو، واللہ اعلم" ختم شد
فتح الباری: (9/145-146)
واللہ اعلم
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:139986