جواب کا خلاصہ یہ ہوا کہ: اپنی ملازمت کیلیے اس علاقے سے باہر نکلنا علمائے کرام کی متفقہ رائے کے مطابق جائز ہے؛ کیونکہ یہ وبا سے خوف زدہ ہو کر باہر نکلنے میں شمار نہیں ہوگا، بلکہ وہاں سے آپ اپنی ملازمت کیلیے باہر نکلیں گے۔
الحمد للہ.
اول:
"ایبولا"ایک وائرس کی وجہ سے پھیلنے والی بڑی بیماری ہے جو کہ بخار کی ایک قسم [Hemorrhagic fever] میں مبتلا کر دیتی ہے، اس وائرس سے متاثرہ شخص بخار کی پانچ میں سے کسی ایک قسم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اس وائرس سے متاثر ہونے والوں کی 25 تا 90 فیصد اموات واقع ہو جاتی ہیں، اموات کی شرح میں کمی یا اضافہ وائرس کی نوعیت پر منحصر ہوتا ہے۔
اس بیماری کی کچھ علامات یہ ہیں: تیز بخار، سر درد، جسم میں درد، قے، پیچش، جلدی سوزش، آنکھوں، کانوں ، ناک ، پاخانے کے راستے سے خون بہنا، نازک اعضا کا سوج جانا۔
ایبولا کا لفط عوامی جمہوریہ کانگو کے علاقے یامبوکو میں اس بیماری کی شناخت ہونے کے بعد علاقے کے قریب ترین دریا ایبولا کی نسبت سے اس بیماری پر بولا گیا ہے۔
ایبولا وائرس بسا اوقات انسان میں جانوروں سے اور کبھی انسانوں سے بھی منتقل ہوتا ہے، جانوروں سے منتقل ہونے کی صورت یہ ہے کہ ایبولا سے متاثر جانور کو جسم لگے یا اس کے جسم سے خارج ہونے والے فضلہ یا سیال مادہ جسم پر لگ جائے تو یہ بیماری منتقل ہونے کا عین خدشہ ہوتا ہے۔
اسی طرح جو لوگ ایبولا وائرس کا شکار ہونے والے جانوروں کے ساتھ رہتے ہیں جیسے کہ چمگادڑ ، چیمپینزی ، گوریلا، بندر اور ہرن وغیرہ ۔
جبکہ انسان سے انسان میں اس مرض کی منتقلی متاثرہ مریض کے خون، بول و براز، منی، اور مردہ جسم کو ہاتھ لگانے سے بھی منتقل ہو جاتے ہیں۔
اس مرض کے بارے میں مزید معلومات کیلیے اس ربط کا وزٹ کریں:
دوم:
ایسی احادیث موجود ہیں جس میں ایک مسلمان کو ایسی جگہ جانے سے منع کیا گیا ہے جہاں پر طاعون پھیل چکا ہو، اسی طرح ایسی جگہ سے باہر نکلنے کے بارے میں بھی ممانعت کی گئی ہے۔
بخاری: (5739 ) اور مسلم: (2219) میں عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جب بھی کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو)
اسی طرح بخاری: (3473) اور مسلم: (2218) میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (طاعون ایک عذاب ہے جو کہ بنی اسرائیل یا تم سے پہلے کسی اور قوم پر نازل کیا گیا: چنانچہ جب بھی کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو)
"طاعون" کیا ہے ؟ اس بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ ایک مخصوص بیماری ہے جو کہ علمائے کرام اور اطبا کے ہاں معروف ہے، جبکہ ایک موقف کے مطابق اس سے کوئی بھی وبائی مرض مراد ہے جس کی وجہ سے اموات واقع ہوتی ہیں۔
ان احادیث میں طاعون زدہ یا وبائی خطے سے باہر نکلنے کی صرف اسی شخص کو ممانعت کی گئی ہے جو اس بیماری سے ڈر کر بھاگے، لیکن تعلیم ، تجارت، یا ملازمت وغیرہ پر مشتمل کسی اور مقصد سے متاثرہ علاقہ چھوڑ کر باہر نکلنا اس ممانعت میں شامل نہیں ہے۔
بیماری سے ڈر کر باہر جانے اور کسی دوسرے مقصد سے باہر نکلنے کے درمیان فرق بہت سے علمائے کرام نے بیان کیا ہے بلکہ کچھ علمائے کرام نے اس فرق پر علمائے کرام کو متفق بھی قرار دیا ہے۔
نووی رحمہ اللہ "شرح صحیح مسلم" میں کہتے ہیں:
"طاعون کی بیماری میں جسم پر پھوڑنے نکلتے ہیں۔۔۔
جبکہ وبا کے بارے میں خلیل وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہ بھی طاعون ہی ہے، جبکہ کچھ نے کوئی بھی وبائی مرض اس میں شامل قرار دیا ہے۔
تاہم صحیح بات وہی ہے جو محقق علمائے کرام نے کی ہے کہ: وبا سے مراد یہ ہے کہ کسی بھی خطے کے لوگ غیر معتاد صورت میں ایک ہی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو اسے وبا کہتے ہیں، لیکن اگر معتاد انداز میں یا مختلف بیماریوں میں ایک ہی خطے کے لوگ بیمار ہوں تو یہ وبا نہیں کہلائے گی۔۔۔
اس حدیث میں طاعون زدہ علاقے میں آنے سے ممانعت کی گئی ہے، اسی طرح طاعون سے ڈر کر طاعون زدہ علاقے سے بھاگنے کی بھی ممانعت ہے۔
البتہ طاعون زدہ علاقے سے کسی اور سبب کی بنا پر نکلنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔
بلکہ علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر طاعون زدہ علاقے سے نکلنے کا سبب طاعون کا خوف نہ ہو بلکہ کوئی اور ضرورت ہو تو پھر وہاں سے باہر نکلنا درست ہے، اور اس کی دلیل صریح احادیث میں موجود ہے۔" انتہی
اسی طرح ابن عبد البر رحمہ ا للہ "التمهيد" (21/183) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں طاعون کی جگہ سے باہر نکلنے کی اجازت ہے بشرطیکہ کہ اس علاقے سے باہر جانے کا سبب طاعون کا خوف نہ ہو بلکہ کوئی ضرورت یا معمول کا سفر ہو" انتہی
اسی طرح ابن مفلح رحمہ اللہ "الآداب الشرعية" (3/367) میں کہتے ہیں:
"اور اگر کسی علاقے میں طاعون کی بیماری پھوٹ پڑے اور تم اس علاقے سے باہر ہو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر اسی علاقے میں ہو تو وہاں سے باہر مت نکلو؛ کیونکہ اس بارے میں مشہور صحیح حدیث یہی تعلیمات دیتی ہے، چنانچہ اہل علم کے ہاں اگر اس علاقے میں جانے یا وہاں سے باہر نکلنے کا سبب طاعون کا ڈر اور خوف ہو تو حرام ہے لیکن اگر وہاں سے باہر نکلنے یا وہاں جانے کا سبب کوئی اور ہو تو حرام نہیں ہے" انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "شرح ریاض الصالحین" (6/569) میں کہتے ہیں:
"طاعون جان لیوا بیماری ہے-اللہ تعالی محفوظ فرمائے- اس کے بارے میں کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ وبائی امراض میں سے کوئی خاص بیماری ہے جس میں انسانی جسم پر پھوڑے اور پھنسیاں نکلتی ہیں۔۔۔ جب کہ کچھ اہل علم کا یہ بھی کہنا ہے کہ طاعون کسی بھی وبائی مرض کو کہتے ہیں جو کہ بہت جلدی پھیل جائے جیسے کہ ہیضہ کی بیماری ہے، طاعون کا یہ دوسرا مفہوم زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر لفظی اعتبار سے طاعون میں شامل نہ ہو لیکن معنوی اعتبار سے طاعون میں شامل ہوگا۔
چنانچہ اگر کسی بھی علاقے میں کوئی بھی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہو تو انسان کو اس علاقے میں نہیں جانا چاہیے اور اگر جہاں وہ رہ رہا ہو وہیں پر کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے تو اس مرض سے ڈرتے ہوئے وہاں سے باہر مت جاؤ۔
اگر کوئی انسان کسی بھی وبائی علاقے سے باہر اس بیماری سے ڈرتے ہوئے نہیں نکلتا بلکہ وہ یہاں کسی کام سے آیا تھا اور اب وہ واپس اپنے علاقے میں جانا چاہتا ہے تو ایسے شخص کے واپس جانے میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
اسی طرح شیخ ابن عثیمین "الشرح الممتع" (1/110-111) میں کہتے ہیں:
"اگر کسی علاقے میں طاعون پھوٹ پڑے تو کیا وہاں سے انسان باہر جا سکتا ہے؟
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (طاعون سے ڈرتے ہوئے وہاں -یعنی جہاں طاعون پھوٹ چکا ہے-سے باہر مت نکلو)
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر آنے سے اس وقت روکا ہے جب طاعون سے ڈرتے ہوئے انسان باہر آئے، لیکن اگر کوئی شخص کسی علاقے میں کسی بھی کام یا تجارت کی غرض سے گیا اور وہاں وہ کام یا تجارت مکمل ہو چکی ہے اب وہ اپنے علاقے میں واپس آنا چاہتا ہے تو ہم اسے یہ نہیں کہیں گے تمہارے لیے اپنے علاقے میں جانا حرام ہے، بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ : آپ اپنے گھر جا سکتے ہیں" انتہی
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کو "فتح الباری" (10/1990) میں مزید تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاعون زدہ علاقے سے باہر آنے والے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں:
1- ایک شخص کا وہاں سے باہر جانے کا مقصد ہی طاعون سے بھاگنا ہے تو یہ شخص یقینی طور پر ممانعت میں شامل ہے۔
2- ایک شخص کا باہر جانے کا مقصد طاعون سے بھاگنا نہیں ہے بلکہ تجارت وغیرہ ہے تو وہ ممانعت میں شامل نہیں ہے، اسی قسم کے بارے میں نووی رحمہ اللہ نے اتفاق نقل کیا ہے کہ سب کے ہاں ایسا شخص باہر جا سکتا ہے۔
3- انسان کسی کام کی غرض سے باہر نکلے اور ساتھ میں طاعون سے بچاؤ بھی شامل کر لے تو اس شخص کے بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس صورت کے بارے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا موقف یہ بیان کیا ہے کہ ایسی صورت میں بھی طاعون زدہ علاقے سے باہر جانا جائز ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے چنانچہ اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک مستقل باب قائم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"باب ہے اس شخص کے بارے میں جو ایسے خطے سے باہر نکلے جس کی فضا اس کے لیے موافق نہ ہو"
اور اس باب کی دلیل کے طور پر وہ حدیث ذکر کی جس میں عرنی لوگوں کا تذکرہ ہے، اس حدیث میں ہے کہ: "کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ میں آئے اور انہوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا، لیکن مدینہ کی نا موافق آب و ہوا کے باعث انہیں بیماری لگ گئی ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ اونٹوں کا دودھ اور بول نوش کریں، تو وہ مدینہ سے باہر چلے گئے کیونکہ اس وقت اونٹ مدینہ کی چراگاہوں میں ہوتے تھے"
امام بخاری نے اس حدیث کو ذکر کرنے سے پہلے وہ حدیث بھی ذکر کی ہے جس میں طاعون زدہ زمین سے طاعون سے خوف زدہ ہو کر باہر نکلنے کی ممانعت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری کے اس عنوان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: امام بخاری نے کہا: " باب ہے اس شخص کے بارے میں جو ایسے خطے سے باہر نکلے جس کی فضا اس کے لیے موافق نہ ہو "۔۔۔ یہ کہہ کر امام بخاری نے اشارہ کیا ہے کہ جس حدیث میں طاعون زدہ علاقے سے باہر نکلنے کی ممانعت کا ذکر ہے اس کا حکم ہر حالت کیلیے نہیں ہے بلکہ یہ ممانعت اس شخص کے ساتھ ہے جو طاعون زدہ علاقے سے خوف زدہ ہو کر باہر جاتا ہے ، جیسے کہ اس کے ثبوت میں آگے گفتگو آئے گی، ان شاء اللہ" انتہی
واللہ اعلم.