سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

قیامت کے دن حساب کی انواع و اقسام

  • 26643
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-17
  • مشاہدات : 17

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ: قبر اور قیامت کے دن کس کس طرح کا حساب ہو گا؟ کیونکہ ہم احادیث میں پڑھتے ہیں کہ جس سے حساب لیا گیا تو اسے عذاب ضرور دیا جائے گا، جبکہ دوسری جانب یہ ہے کہ مومن کو صرف حساب کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح قرآن کریم میں ہے کہ انسان اچھا برا کوئی بھی کام کر لے اپنے اس کام کو قیامت کے دن ضرور دیکھے گا، چاہے اس کی مقدار ذرے کے برابر ہی کیوں نہ ہو، یعنی پانی کے ایک گھونٹ کو بھی نعمت شمار کیا جائے گا اور اس کا بھی حساب ہو گا، چاہے ایک گھونٹ پانی دنیا میں لینے والا کافر ہو یا مومن! اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے، ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں اس کی وضاحت کریں گے۔

الحمد للہ.

اول:

عذاب قبر اور قبر میں ملنے والی نعمتیں قرآن و سنت کی صریح نصوص اور اجماع سے ثابت ہیں، اور قبر میں عذاب یا نعمتوں کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ یہ روح کو ہوتا ہے، تاہم کبھی یہ بھی ممکن ہے کہ روح کا تعلق بدن سے جڑ جائے اور بدن کو بھی کچھ نہ کچھ عذاب یا نعمتیں حاصل ہوں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21212 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

جبکہ قبر میں کسی قسم کا حساب نہیں ہو گا، قبر میں کچھ اعمال کا عذاب ہو گا، یا جو شخص نیکو کار ہو گا تو اسے نعمتیں حاصل ہوں گی، حساب صرف قیامت کے دن ہی ہو گا۔

دوم:
بنیادی طور پر اصول یہی ہے کہ تمام لوگوں کا حساب صرف قیامت کے دن ہو، تاہم لوگوں میں کچھ ایسے ہوں گے کہ اللہ تعالی ان پر خاص کرم فرمائے گا اور انہیں کسی پیشگی حساب اور عذاب کے ہی جنت میں داخل فرما دے گا، جیسے کہ اس کی تفصیل سوال نمبر: (4203) میں گزر چکی ہے۔

ترمذی: (3357) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس وقت آیت کریمہ ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِيمِ نازل ہوئی تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم سے کون سی نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ ہمارے پاس تو پانی اور کھجور کے علاوہ کچھ نہیں، اور سامنے دشمن للکار رہا ہے ، جنگ کے لیے ہماری تلواریں ہمارے کندھوں پر ہیں؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ نعمتیں عنقریب حاصل ہوں گی۔) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ: تم سے اللہ تعالی کی نعمتوں پر شکر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ اللہ تعالی نے تمہیں صحت، امن، اور رزق وغیرہ جیسی نعمتیں عطا کی ہیں ان سب کا تم نے اس کے بدلے میں کیسے اللہ کا شکر اور اس کی بندگی کی ؟" ختم شد
"تفسیر ابن کثیر" (8 /474)

اسی طرح سیدنا ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قیامت کے دن اس وقت تک بندے کے قدم ہل نہیں سکیں گے جب تک اس سے اس کی عمر کے بارے میں سوال نہ کیا جائے کہ کہاں فنا کی؟ اس کے علم کے بارے میں کہ کس حد تک اس پر عمل کیا؟ اور اس کے مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ کہاں اس کی توانائی صرف کی؟) اس حدیث کو ترمذی: (2417)نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: اللہ تعالی اپنے ہر بندے سے ہر نعمت کے بارے میں پوچھے گا اور اپنے ہر حق کے متعلق سوال کرے گا۔
جن نعمتوں کے بارے میں سوال ہو گا وہ دو قسم کی ہیں: ایسی نعمتیں جنہیں حلال ذرائع سے حاصل کیا اور پھر اسے صحیح جگہ پر صرف کیا تو ایسی نعمت کے شکر کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اور دوسری قسم وہ ہے جو حلال طریقے سے حاصل نہیں کی پھر اسے غلط جگہ پر صرف کیا تو اس کے ذریعے کے بارے میں بھی پوچھا جائے گا اور اس کے مصرف کے متعلق بھی پوچھا جائے گا۔" ختم شد
"إغاثة اللهفان" (1 /84)

ابن قیم رحمہ اللہ مزید ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں:
"کوئی بھی شخص دنیا میں کسی بھی نعمت میں رہا تو اس سے اس نعمت کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ کیا اس نے حلال اور صحیح ذریعے سے یہ نعمت حاصل کی تھی یا نہیں؟ چنانچہ اگر اس سوال کے جواب سے نکل گیا تو اس سے دوسرا سوال کیا جائے گا: کیا اس نعمت کے ملنے پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیے اسے اللہ تعالی کی اطاعت میں استعمال کیا یا نہیں؟ تو پہلا سوال اس نعمت کے ذریعہ حصول کے بارے میں اور دوسرا سوال اس کے مصرف کے بارے میں ہو گا۔" ختم شد
"عدة الصابرين" (ص 157)

سوم:
قیامت کے دن حساب دو طرح کا ہو گا:

پہلی قسم:
تفصیلات سامنے رکھنے کی صورت میں حساب، یہ قسم اہل ایمان کے ساتھ خاص ہے، اس حساب میں مومن سے اس کے عمل، علم اور اللہ تعالی کی حاصل کردہ نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، چنانچہ مومن شخص ان سوالات کا جواب اللہ تعالی کی توفیق سے اتنا ہی دے گا، جتنا اللہ تعالی اس کی شرح صدر فرمائے گا، اور اسے اللہ تعالی کی طرف سے ثابت قدمی اور بولنے کی نعمت حاصل ہو گی۔

پھر جب اس کے سامنے اس کے گناہ پیش کیے جائیں گے تو مومن ان کا بھی اقرار کر لے گا، تو اللہ تعالی اس کے گناہوں پر پردہ ڈال دے گا اور معاف فرما دے گا۔

اس سے مکمل تفتیش اور چھان بین کی صورت میں حساب نہیں لیا جائے گا، اسے اس کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں تھمایا جائے گا، اور یہ جنت میں اپنے اہل خانہ کے پاس خوشی خوشی لوٹے گا؛ کیونکہ یہ عذاب سے نجات پا چکا ہو گا اور اپنے نیک اعمال کا ثواب پا لے گا۔

چنانچہ صحیح بخاری: (6536) اور صحیح مسلم: (2876) میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس سے حساب تفتیش کے ساتھ لیا گیا تو اسے عذاب دیا جائے گا۔) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے کہا: کیا اللہ تعالی کا یہ فرمان نہیں ہے کہ: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا یعنی اس دن اللہ تعالی آسان حساب لے گا؟! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ تفصیلات سامنے رکھنے کی شکل میں حساب ہے۔)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (یہ تفصیلات سامنے رکھنے کی شکل میں حساب ہے۔) کا مطلب یہ ہے کہ: آیت میں مذکور حساب سے مراد وہ حساب ہے جس میں مومن کے سامنے اس کے اعمال پیش کیے جائیں گے تا کہ مومن کو اللہ تعالی کے احسان کا پتہ چل جائے کہ اللہ تعالی نے دنیا میں اس کے برے اعمال کی پردہ پوشی کی اور آخرت میں انہیں معاف کر دیا ہے۔" ختم شد

مسند احمد: (24988) میں مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے آسان حساب کے بار ے میں سوال کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! آسان حساب کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک شخص کے گناہ اس کے سامنے رکھے جائیں گے، پھر اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا؛ کیونکہ جس سے تفتیش شروع کر دی گئی تو وہ ہلاک ہو گیا۔) اس حدیث کو البانیؒ نے "ظلال الجنة" (2/128) میں صحیح قرار دیا ہے۔

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مومن کا بھی حساب ہو گا، لیکن اس حساب میں تفتیش نہیں ہو گی؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے : (جس سے تفتیش شروع کر دی گئی تو وہ ہلاک ہو گیا) یا آپ نے فرمایا کہ: (اسے عذاب دیا جائے گا۔) اس لیے مومن کا حساب اعمال سامنے رکھنے کی صورت میں ہو گا۔" ختم شد
"اللقاء الشهري" (1 /378)

صحیح بخاری: (2441) اور صحیح مسلم: (2768) میں ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اللہ تعالیٰ مومن کو اپنے نزدیک کرے گا اور اس پر اپنا پردہ ڈال دے گا اور اسے چھپا لے گا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کیا تجھ کو فلاں گناہ یاد ہے؟ کیا فلاں گناہ تجھ کو یاد ہے؟ تو مومن کہے گا : جی ہاں ! اے میرے پروردگار۔ آخر جب وہ اپنے گناہوں کا اقرار کر لے گا اور اسے یقین آ جائے گا کہ اب وہ ہلاک ہو گا، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ : میں نے دنیا میں تیرے گناہوں پر پردہ ڈالا۔ اور آج بھی میں تجھے مغفرت عطا کرتا ہوں۔ پھر اسے اس کی نیکیوں کی کتاب دے دی جائے گی۔ جبکہ کافر اور منافق کے متعلق ان پر گواہ ( ملائکہ، انبیاء، اور تمام جن و انس سب ) کہیں گے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا۔ خبر دار ہو جاؤ ! ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہو گی۔)

دوسری قسم:
تفتیش اور چھان بین کی صورت میں حساب، اس قسم کا حساب کافروں اور موحد لوگوں میں سے جس نافرمان کا چاہے اللہ تعالی لے گا، ان کا حساب طویل بھی ہو سکتا ہے، اور ان کے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے مشکل بھی ہو سکتا ہے، ان موحد لوگوں میں سے جنہیں اللہ تعالی چاہے گا ایک وقت تک جہنم میں ڈالے گا، اور پھر آخر کار ان سب کو ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔

چنانچہ صحیح مسلم: (2968) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: "صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا دوپہر کے وقت جب بادل نہ ہوں تمھیں سورج دیکھنے میں کوئی زحمت ہوتی ہے۔؟) صحابہ کرام نے کہا: نہیں آپ نے فرمایا: (چودھویں کی رات کو جب بادل نہ ہوں تو کیا تمھیں چاند کو دیکھنے میں کو ئی زحمت ہوتی ہے؟) صحابہ کرام نے کہا: "نہیں" آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔!تمھیں اپنے رب کو دیکھنے میں اس سے زیادہ زحمت نہیں ہو گی جتنی زحمت تمھیں ان دونوں کو دیکھنے میں ہو تی ہے ۔) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا: (اللہ تعالی بندے سے ملاقات فرمائے گا تو کہے گا : فلاں! کیا میں نے تمھیں عزت نہ دی تھی؟ تمھیں سردار نہ بنایا تھا ؟ تمھاری شادی نہ کرائی تھی؟ گھوڑے اور اونٹ تمھارے اختیار میں نہ دیے تھے؟ اور تمھیں ایسا نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم سرداری کرتے تھے اور لوگوں کی آمدنی میں سے چوتھائی حصہ لیتے تھے ؟وہ جواب میں کہے گا۔ کیوں نہیں ! [یعنی: بالکل ایسا ہی تھا۔] تو اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تم سمجھتے تھے کہ تم مجھ سے ملو گے؟ وہ کہے گا: نہیں۔ تو اللہ تعالی فرمائے گا: آج میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا۔ جس طرح تم مجھے بھول گئے ، پھر دوسرے بندے سے اللہ تعالی ملاقات کرتے ہوئے فرمائے گا: اے فلاں !کیا میں نے تمھیں عزت اور سیادت سے نہیں نوازا تھا؟ تمھاری شادی نہیں کرائی تھی؟ تمھارے لیے اونٹ اور گھوڑے مسخر نہیں کیے تھے؟ اور تمھیں اس طرح نہیں بنا چھوڑا تھا کہ تم ریاست کے مزے لیتے تھے؟ اور لوگوں کے مالوں میں سے چوتھا ئی حصہ وصول کرتے تھے۔؟وہ کہے گا: کیوں نہیں میرے رب! [یعنی : بالکل ایسا ہی تھا] تو اللہ تعالی فرمائے گا: تمھیں اس بات کا کوئی گمان بھی تھا کہ تم مجھ سے ملاقات کرو گے؟ وہ کہے گا : نہیں ۔ تو اللہ تعالی فرمائے گا: اب میں بھی اسی طرح تمھیں بھول جاؤں گا جس طرح تم مجھے بھول گئے تھے ۔پھر اللہ تعالی تیسرے بندے سے ملاقات کرتے ہوئے بھی وہی فرمائے گا: تو بندہ کہے گا : اے میرے رب !میں تجھ پر، تیری کتابوں اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا تھا، اور نمازیں پڑھی تھیں، روزے رکھے تھے، اور صدقہ دیا کرتا تھا ، جتنا اس بندے کے بس میں ہو گا (اپنی نیکی کی)تعریف کرے گا ،چنانچہ اللہ فرمائے گا: تب تم یہیں ٹھہرو۔ فرمایا: پھر اس سے کہا جا ئے گا: اب ہم تم تمھارے خلاف اپنا گواہ لائیں گے! مومن دل میں سوچے گا میرے خلاف کون گواہی دے گا۔؟پھر اس کے منہ پر مہر لگا دی جا ئے گی اور اس کی ران گوشت اور ہڈیوں سے کہا جائے گا: بولو! تو اس کی ران اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں اس کے عمل کے متعلق بتائیں گی۔ یہ اس لیے کہا جا ئے گا کہ اللہ تعالی اس کے لیے کسی قسم کا عذر باقی نہ رہنے دے۔ اور یہ منافق ہو گا جس پر اللہ تعالیٰ سخت ناراض ہو گا۔"

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیت مبارکہ: ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِيمِ اس سے مراد کافر ہیں یا مومن اور کافر دونوں ہی مراد ہیں؟ چنانچہ اس بارے میں صحیح موقف یہ ہے کہ اس سے مراد مومن اور کافر دونوں ہی ہیں، لہذا ہر ایک سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا، تاہم کافر سے سوال ڈانٹ ڈپٹ اور سرزنش کے انداز میں پوچھا جائے گا، جب کہ مومن سے نعمتوں کی یاد دہانی کے لیے پوچھا جائے گا۔۔۔ یعنی مومن سے اللہ تعالی کی نعمتوں کے بارے میں سوال اس لیے کیا جائے گا کہ اسے اللہ تعالی کی نعمتیں یاد آ جائیں اور خوش ہو کہ یہ وہی ذات ہے جس نے مجھے دنیا میں نعمتوں سے نوازا تھا، اور وہی آخرت میں بھی ان پر اپنی نعمتیں نچھاور کرے گی، جبکہ کافر سے یہ سوالات سرزنش اور تفتیش کے لیے ہوں گے۔" مختصراً ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (98 /9)

واللہ اعلم

 

اسلام سوال وجواب

فتوی نمبر:182318

تبصرے