مدرسین مبلغین ائمہ مساجد و مؤذنین کو اپنے عہدوں پر تنخواہ لینا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو قرآن واحادیث صحیحہ سے تصریح دکھائی جاوے۔
مدرسین مبلغین و ائمہ مساجد و مؤذنین کو مفت بلامعاوضہ یہ کرم کرنے چاہئیں، لیکن اگر ان کو کوئی شخص یا اشخاص پابند کریں کہ تم فلاں وقت سے فلاں وقت تک یہ کام بطور ملازمت کرنا ہو گا۔ کچھ بھی ہو تم کو ہماری اجازت بغیر ناغہ نہ کرنا ہو گا اور بلا ہماری اجازت اور کوئی کام بھی نان اوقات مین نہ کرنا ہو گا، خصوصاً تم کو مسجد کی حفاظت جھاڑو و بھارو پانی بھرنا یا گرم کرنا لازم ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ تو پھر اس صورت میں یہ لوگ صرف مؤذن و مدرس وغیرہ نہ رہے بلکہ ان لوگوں کے نوکر ہو گئے اس صورت میں وہ برابر تنخواہ کے مستحق ہیں۔ جیسے اور قسم کے نوکر و ملازم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی تعلیم مفت لازم مگر یہ کہاں ہے۔ کہ فلاں شخص کے مکان یا مدرسہ میں اتنے وقت تک روزانہ جا کر درس دینا لازم ہے۔ ایسے ہی اور امور بھی اور جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ و حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بہ پابندی خلافت بیت المال سے وظیفہ لیا جس میں دینی تعلیم بھی تھی تو مدرسین وغیرہ کو کیوں ناجائز ہو؟ حابس پر محبوس کا نان نفقہ لازم ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو بعض اعمال کو لکھاتھا۔ اعظ الناس علی تعلیم القران۔ (از الۃ الخلفاء بروایۃ بیہقی جلد دوم صفحہ ۱۱۸)
پس مدرسین کو مشاہرہ لینا ثابت ہوا۔ واللہ اعلم (الراقم ابو سعید شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ و صدر موتمر اہل حدیث ہند دہلی)
(الجواب صحیح محمد یونس غفرلہ مفتی مؤتمر اہل حدیث ہند و صدر مدرس مدرسہ میاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ دہلی)
(اہل حدیث گزٹ دہلی جلد نمبر ۹ ش نمبر ۸)