الحمد للہ.
سوال میں ذکر کردہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر جھوٹ اور من گھڑت ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:
اس روایت کو امام طبرانی نے : "مسند الشاميين" (2238) میں ، اسی طرح امام الشاشي نے اپنی مسند میں: (1224) ، الحسن الخلال نے اپنی امالی: (66) میں اور امام بیہقی نے اپنی کتاب : "القضاء والقدر" (60) میں روایت کیا ہے، اس کی سند یہ ہے: محمد بن قیس، عبادہ بن نسی سے، وہ جنادہ بن ابی امیہ سے اور وہ عبادہ بن صامت سے روایت کرتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دن کہا- اس وقت رمضان شروع ہو چکا تھا-: (تمہارے پاس ماہ رمضان آیا ہے، اس میں اللہ تعالی تمہیں اپنی رحمت میں ڈھانپ لے گا؛ تو اس ماہ میں رحمت نازل ہو گی، اللہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا، اور اس میں دعا مستحب ہے، نیز اللہ تعالی تمہارے بڑھ چڑھ کر عبادت کرنے کو دیکھے گا اور اپنے فرشتوں کے سامنے تمہارا فخر سے تذکرہ کرے گا، اس لیے تم اپنی خیر و بھلائی اللہ کے سامنے رکھو؛ کیونکہ اس ماہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہنے والا بد بخت ہے)
اس حدیث کی کمزوری محمد بن قیس کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ یہ کذاب راوی ہے، اس کا اصل نام محمد بن سعید حسان بن قیس الاسدی ہے، جو کہ مصلوب کے نام سے مشہور ہے۔
اس حدیث کو ہیثمی نے مجمع الزوائد : (4783) میں بھی روایت کیا ہے، اس کے بعد امام ہیثمی کہتے ہیں: "اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم الکبیر میں نقل کیا ہے، لیکن اس میں ایک راوی محمد بن ابی قیس ہے، مجھے کوئی ایسا محدث نہیں ملا جس نے اس کے حالات زندگی لکھے ہوں" ختم شد
حافظ برہان الدین ناجی اپنی کتاب: "عجالة الإملاء" (2/822) میں لکھتے ہیں کہ:
"ہمارے استاد الشیخ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہیثمی کی کتاب مجمع الزوائد کے ذاتی نسخے کے حاشیہ پر اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے کہ: مذکورہ محمد نامی راوی وہی راوی ہے جو مصلوب کے نام سے مشہور ہے، اور اس کا نام محمد بن سعید بن حسان بن قیس الاسدی شامی ہے، اس کی روایات کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ صاحب کتاب: تہذیب الکمال ، تہذیب التہذیب اور تقریب التہذیب سب نے اس کا یہی نسب ذکر کیا ہے۔
اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ لوگوں نے اس مصلوب کے ایک سو نام رکھے ہوئے ہیں، تا کہ اس کے بارے میں کسی کو علم نہ ہو سکے۔
تو ہمارے استاد محترم کہتے ہیں: "میرے نزدیک یہ محمد بن ابو قیس وہی ہے جو محمد بن سعید مصلوب ہے، اور یہ شخص متروک [یعنی اس کی روایات کو بیان کرنا ترک کر دیا گیا تھا۔]اور متہم بالکذب [یعنی: اس پر جھوٹ بولنے کا الزم ہے]"" ختم شد
الشیخ البانی رحمہ اللہ "ضعيف الترغيب والترهيب" (892) میں لکھتے ہیں: "یہ روایت من گھڑت ہے۔"
اس معاملے میں اس من گھڑت حدیث سے بہتر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، اسے امام نسائی : (2106) امام احمد : (7148) اور عبد بن حمید نے اپنی اپنی مسند: (1429) میں اور اسی طرح ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف: (8867) میں روایت کیا ہے اس میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "جس وقت رمضان آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا: (تمہارے پاس ماہ رمضان آ چکا ہے، یہ برکت والا مہینہ ہے، اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، نیز سرکش شیطانوں کو اس میں جکڑ دیا جاتا ہے، اس مہینے میں اللہ تعالی کی ایک رات ہے جو ہزار مہینے سے بھی افضل ہے، جو اس رات سے محروم رہا تو وہ حقیقی محروم ہے۔)"
اس حدیث کی سند ابو قلابہ الجرمی اور ابو ہریرہ کے درمیان سے منقطع ہے؛ کیونکہ ابو قلابہ الجرمی کی ابو ہریرہ سے روایات مرسل ہیں یہ بات علامہ علائی و دیگر محدثین نے بیان کی ہے۔
تاہم علامہ جوزقانی نے اس حدیث کو "الأباطيل والمناكير" (473) میں حسن کہا ہے، جبکہ شیخ البانی نے اس حدیث کو "صحيح الترغيب والترهيب" (999) میں صحیح لغیرہ قرار دیا ہے، مزید تفصیلات کے لئے مسند احمد (12/59) -طبعہ مؤسسہ الرسالہ-کا حاشیہ دیکھیں۔
اس حدیث کو رمضان کی مبارکباد دینے کے لئے بنیادی دلیل شمار کیا جاتا ہے، جیسے کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ "لطائف المعارف" (147) میں کہتے ہیں:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کرام کو ماہ رمضان کی آمد پر مبارکباد دیتے تھے جیسے کہ امام احمد اور نسائی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے: (تمہارے پاس ماہ رمضان آ چکا ہے، یہ برکت والا مہینہ ہے، اللہ تعالی نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض کیے ہیں، اس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، نیز سرکش شیطانوں کو اس میں جکڑ دیا جاتا ہے، اس مہینے میں اللہ تعالی کی ایک رات ہے جو ہزار مہینے سے بھی افضل ہے، جو اس رات سے محروم رہا تو وہی حقیقی محروم ہے۔)
تو بعض علمائے کرام نے کہا ہے کہ یہ حدیث ماہ رمضان کی ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کے لئے بنیادی دلیل ہے۔" ختم شد
ملا علی قاری نے "مرقاة المفاتيح" (4/1365) میں اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ:
"یہ حدیث بابرکت مہینوں کے آغاز میں مبارکباد دینے کے معروف عمل کی دلیل ہے" ختم شد
اسی طرح "حاشية اللبدي" (1/99) میں ہے کہ:
"لوگوں کی عادت کے مطابق عیدین ، نئے سال اور مہینوں کی مبارکباد دینے کے بارے میں ہمارے فقہائے کرام کی کوئی صراحت مجھے نظر نہیں آئی، تاہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رمضان کی آمد پر صحابہ کرام کو خوشخبری سنایا کرتے تھے۔
کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ: یہ حدیث بابرکت مہینوں کے آغاز میں مبارکباد دینے کے معروف عمل کی دلیل ہے ۔
میرا یہ موقف ہے کہ: اسی حدیث پر خیر و بھلائی کی بہاروں اور عبادات کے لمحات کی مبارکباد دینے کے عمل کا قیاس ہو گا" ختم شد
کوئی بھی نعمت دینی ہو یا دنیاوی اس پر مبارکباد دینا شرعی طور پر جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے کہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول ہونے کی حدیث میں ہے کہ: " لوگ گروہ در گروہ مجھ سے ملتے اور توبہ قبول ہونے کی مبارک دیتے ہوئے کہتے: تمہیں مبارک ہو کہ اللہ تعالی نے تمہاری توبہ قبول فر ما لی اور تم کو معاف کر دیا۔
کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف فرما تھے اور لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ تو طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ فوری دوڑتے ہوئے آئے مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم! مہاجرین میں سے ان کے علاوہ اور کوئی شخص میری طرف اٹھ کر نہیں آیا ، اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس انداز کو میں کبھی نہیں بھولوں گا۔" اس حدیث کو امام بخاری: (4418) اور مسلم : (2769)نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ہیتمی "تحفة المحتاج" (3/56) میں کہتے ہیں:
"قمولی رحمہ اللہ کہتے ہیں: لوگوں کی طرف سے عید، سال اور مہینوں کی مبارکباد دینے کے عمل سے متعلق ہمارے فقہائے کرام میں سے کسی کا کلام میں نے نہیں دیکھا۔ لیکن حافظ منذری نے حافظ مقدسی کے متعلق نقل کیا ہے کہ انہوں نے اس عمل کے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا: لوگوں کا اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے، تاہم میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ مباح عمل ہے، اس میں سنت یا بدعت کا مسئلہ نہیں ہے۔
پھر اس کے بعد ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کی اس گفتگو کو دیکھ کر کہ ان کے ہاں یہ عمل جائز ہے، تو اس کی دلیل بھی بیان کی کہ بیہقی رحمہ اللہ نے اس بارے میں باب قائم کیا ہے، امام بیہقی کہتے ہیں: "باب ہے عید کے دن لوگوں کے ایک دوسرے کو "تقبل الله منا ومنكم"کہنے کے بارے میں۔" پھر اس کے بعد انہوں نے امام بیہقی کے ذکر کردہ ضعیف واقعات اور آثار بتلائے، تاہم مجموعی طور پر ان کو ایسے مسائل میں دلیل بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے بعد مزید یہ بھی لکھا کہ: اگر کسی کو کوئی نعمت حاصل ہو یا کوئی مصیبت ٹل جائے تو اس پر مبارکباد دینے کے لئے سجدہ شکر اور تعزیت کے عمل کو دلیل بنایا گیا ہے، اسی طرح صحیح بخاری اور مسلم میں موجود کعب بن مالک کی توبہ قبول ہونے کے واقعہ کو بھی دلیل بنایا گیا، کہ جب آپ کو توبہ کی قبولیت کی خوشخبری سنائی گئی تو آپ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب چل دئیے اور وہاں پر طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر انہیں مبارکباد دی ، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے طلحہ کے اس عمل کو برقرار رکھا۔" ختم شد
ابن قیم رحمہ اللہ "زاد المعاد" (3/512) میں کعب رضی اللہ عنہ کی توبہ قبول ہونے کی حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کسی کو کوئی دینی نعمت ملے تو اسے مبارکباد دینا مستحب ہے، نیز اگر وہ شخص آئے تو اس کی جانب کھڑے ہو کر جانا، اسے مصافحہ کرنا بھی مستحب سنت ہے، نیز یہ عمل دنیاوی نعمت ملنے پر بھی جائز ہے۔"
واللہ اعلم