سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(370) تعویز لٹکانے کی حرمت

  • 2655
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5010

سوال

(370) تعویز لٹکانے کی حرمت
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تعویزات لٹکانے کی حرمت پر منقول احادیث بیان کر دیں۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعویذ لٹکانا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، ان کو باندھنا حرام ہے۔ جب آدمی ان میں خیر کے طلب اور شر کے دور کرنے کا عقیدہ رکھ لے تو یہ شرک اکبر تک پہنچا دیتے ہیں ۔ سیدناعبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

" من تعلق شیئاً وکِّل إلیہ " (ترمذی فی الطب ۲۴ ج ۴/۴۰۳ ۔ أحمد ج ۴/۳۱۰ )

جس نے کوئی چیز لٹکائی اس کو اسی کے سپرد کر دیا جائے گا، یعنی اللہ تعالی اس کو اسی طرف چھوڑ دے گا۔

دوسری جگہ فرمایا:

" من تعلق تمیمۃ فلا اتم اﷲ لہ " (مسند احمد ج۴/۶۵۴)

جس نے تعویذ لٹکایا تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری نہ کرے ۔

ایک اور روایت میں آتا ہے :

" من تعلق تمیمۃ فقد اشرک " (مسند احمد ج۴/۱۵۶ والحاکم ج۴/۲۱۹)

جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا ۔

ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس کے ہاتھ میں پیتل کا ایک حلقہ (کڑا) تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ ؟ تو اس نے عرض کی کہ میرے جوڑوں میں بیماری ہے جس کی وجہ سے میں نے اس کوپہنا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو حکم دیا کہ :

" انزعہا فانہا لا تذیدک الا وہنًا و انک لومت وہی علیک ما افلحت ابدًا " (مسند احمد ج ۴/۴۴۵ ابن ماجۃ فی الطب ج ۲/۱۱۶۷ )

اس کو اتار دو یہ آپ کی بیماری کو اور زیادہ کر دے گا اور اگر تم اسی حالت میں مر گئے کہ یہ آ پ کے ہاتھ میں تھا تو تم کبھی بھی فلاح نہیں پاؤ گے ۔

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے بخار کی وجہ سے دھاگہ باندھا ہوا ہے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس دھاگے کو توڑ دیا اور یہ آیت پڑھی ۔

" وَمَا یُؤْمشنُ اَکْثَرُہُمْ بِاﷲِ اِلاَّ وَہُمْ مُشْرِکُوْنَ " (سورۃ یوسف آیت۱۰۶)

اور ان کی اکثریت اللہ تعالیٰ پر ایمان نہیں لائی اور وہ مشرک ہیں ۔

تمام قسم کے تعویذات لٹکانے کی حرمت پر ادلہ واضح اور روشن ہیں چاہے ان میں قرآن حکیم کی آیات ہی کیوں نہ لکھی ہوئی ہوں ۔ جس نے یہ کہا کہ جس میں قرآن کریم کی آیات لکھی ہوں تو جائز ہے تو اس کی بات کا کچھ اعتبار نہیں اس کے قول کو دلیل نہیں بنایا جائے گا اس لئے کہ اس کی بات پر قرآن و حدیث کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔

اور وہ پردے (چادریں) جن پر قرآن حکیم لکھا ہوا ہوتا ہے ، پھر ان چادروں کو مریضوں پر ڈالا جاتا ہے ، حرام ہے ۔ ان کے درمیان اور تعویذات کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔

تعویذات کا حرام ہونا چند وجوہات کی بنا پر ہے :

1۔ تعویذات کی حرمت میں نہی اور ممانعت کا عموم ہے اس عموم کو خاص کرنے والی کوئی چیز (دلیل) نہیں آئی ۔ اور یہ ایک اصولی قاعدہ ہے کہ عام اپنے عموم پر باقی رہتا ہے جب تک اس عام کو خاص کرنے والی کوئی دلیل نہ آئے ۔

2۔ قرآن کریم میں سے لکھے ہوئے تعویذات لٹکانا قرآن کریم کو حقیر اور کمتر سمجھنے کے مترادف ہے اور ا س کے ساتھ لہو و لعب ہے اس لئے کہ کبھی کبھار انسان نجاستوں کی جگہ آتا ہے یا ان جگہوں میں جاتا ہے جن جگہوں سے قرآن کریم کو ادبًا اور احترامًا منزہ کیا جاتا ہے ۔

3۔ اسباب کو روکنے کے لئے اس لئے کہ اگر قرآن کریم سے لکھے ہوئے تعویذات کی اجازت دی جائے تو یہ غیر قرآن کریم سے تعویذات لکھنے اور لٹکانے کا ذریعہ بن جائے گا ۔

4۔ اس طرح کا عمل سلف صالحین میں سے کسی ایک سے بھی ثابت نہیں ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے اس طرح کی جو نسبت کی گئی ہے صحیح نہیں ہے ۔

اگر یہ تعویذ گنڈے مشروع اور جائز ہوتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بیان کر دیتے اور اس عمل کی دلیل صحیح طور پر ہم تک پہنچ جاتی اس لئے کہ بیان ضرورت کے وقت پیچھے نہیں رہتا ۔

ہمارے اس زمانہ میں کچھ جادو گر اور ہاتھ کی صفائی دکھانے والے پائے جاتے ہیں جو لوگوں کے لئے ان اوراق میں جن کے ذریعے شفاء حاصل کرتے ہیں تعویذات لکھتے ہیں اور ان کولوگوں کے گلوںمیں باندھتے ہیں اور جھوٹ بول کر لوگوں کا مال کھاتے ہیں اور ان کے دین اور عقیدہ کو فاسد کرتے ہیں ۔

کئی مولوی بھی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ ان لٹیروں اور دین کے ڈاکوؤں سے بچ جائیں اور ان کے پاس جا کر علاج کروانے سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب سے کھیلتے ہیں اور اپنے شعبدہ بازی اور ہاتھ کی صفائی سے کمزور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں ۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

تبصرے