الحمد للہ.
اول:
ہمارے نبی مکرم جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم بردباری، تحمل مزاجی، اور زبانی مٹھاس جیسی عظیم صفات سے متصف تھے ، اللہ تعالی نے آپ کی یہ خوبی قرآن کریم میں بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے:
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ
ترجمہ: اللہ کی رحمت سے ہی آپ ان کے لیے نرم خو ہوئے، اگر آپ سخت گو اور سنگ دل ہوتے تو وہ سب آپ کے ارد گرد سے تتر بتر ہو جاتے۔[آل عمران:159]
بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس خوبی کا تذکرہ سابقہ کتب سماویہ میں بھی آیا ہے، جیسے کہ
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :
"اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تورات میں بھی بعض وہ خوبیاں مذکور ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔۔۔ وہ فحش گو نہیں ہو گا، نہ ہی سنگ دل ، وہ بازاروں میں شور و غوغا نہیں کر ے گا، نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دے گا، بلکہ وہ در گزر اور معاف کرے گا۔ " اس حدیث کو بخاری: (2125) نے روایت کیا ہے۔
نیز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عملی زندگی کو انہی صفات سے مزین پایا،
جیسے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم گالی گلوچ، فحش گوئی نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی لعنت بھیجتے تھے، اور جب کسی کو ڈانٹ پلاتے تو فرماتے : اسے کیا ہو گیا ہے! اس کی پیشانی خاک آلود ہو) اس حدیث کو بھی بخاری: (6031) نے روایت کیا ہے۔
حتی کہ بسا اوقات آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مشرکوں کے بد دعا کے مستحق ہونے کے باوجود ان پر بد دعا نہیں فرمائی، جیسے کہ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "کہا گیا: اللہ کے رسول! مشرکوں کے خلاف بد دعا کر دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے لعنت کی صورت میں بد دعا کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔)" اس حدیث کو امام مسلم: (2599) نے روایت کیا ہے۔
دوم:
سوال میں مذکور حدیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح ثابت ہے۔
یہ روایت متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے، جیسے کہ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یا اللہ! جس کسی مومن کو میں نے برا بھلا کہا ہے، تو اسے اس مومن کے لیے روزِ قیامت تیرے قرب کا ذریعہ بنا دے)
حدیث کے یہ الفاظ امام بخاری: (6361) کے ہیں ویسے اس حدیث کو مسلم : (2601)نے بھی روایت کیا ہے۔ اسی مفہوم کی ایک اور روایت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مسند احمد: (3/33) میں مروی ہے، اسی طرح مسند احمد : (5/294)میں ہی ابو سوارؒ اپنے ماموں سے بھی بیان کرتے ہیں، اس لیے یہ روایت اصح الاحادیث یعنی صحیح ترین احادیث میں شامل ہے۔
ایسے ہی سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً میں بشر ہوں، اور میں نے اپنے رب سے طے کیا ہے کہ : میں مسلمانوں میں سے کسی بھی انسان کو برا بھلا کہوں تو اسے اس کے لیے پاکیزگی اور اجر کا باعث بنا دے۔) اس حدیث کو مسلم: (2602) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی اور یہی [ام سلیم رضی اللہ عنہا] انس رضی اللہ عنہ کی والدہ بھی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچی کو دیکھا تو فرمایا: (کیا تم وہی ہو، تم تو بہت بڑی ہو گئی ہو! تیری عمر بڑی نہ ہو) یہ سن کر وہ لڑکی روتی ہوئی واپس سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی، تو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا: "بیٹی! کیا ہوا؟" اس نے کہا: "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بد دعا دی ہے کہ میری عمر زیادہ نہ ہو، اب میری عمر کسی صورت زیادہ نہیں ہو گی" تو سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا سر پر جلدی سے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے نکلیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: (ام سلیم! کیا بات ہے؟) سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: "اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری یتیم بیٹی پر بد دعا کی ہے؟" آپ نے پوچھا: (ام سلیم! تمہارا کیا مطلب ہے؟) اس پر سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے بتلایا: "میری بیٹی کا کہنا ہے کہ: آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو" سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دئیے اور پھر فرمایا: "ام سلیم! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے طے کرتے ہوئے یہ کہا ہوا ہے کہ: میں ایک بشر ہی ہوں، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے بد دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے۔" اس حدیث کو امام مسلم: (2603) نے روایت کیا ہے۔
سوم:
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقوق میں غلو کرنے والے لوگوں پر رد ہے؛ وہ اس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح فرمایا کہ میں بشر ہوں، مجھے بھی ایسے ہی غصہ آتا ہے جیسے عام بشر کو آتا ہے، اگرچہ آپ اللہ تعالی کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے، تقوی الہی کے سب سے بڑے حامل تھے، آپ غلطی اور کوتاہی سے سب سے دور بھی تھے؛ ہاں آپ کا ذاتی اجتہاد معصوم عن الخطا نہیں تھا، آپ کے بشر ہونے کی وجہ سے شاذ و نادر صادر ہونے والی لغزشوں سے آپ معصوم نہیں تھے، تاہم اتنا ضرور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اجتہادی لغزش پر برقرار رہنے سے معصوم تھے، آپ کی لغزش کی اصلاح کے لیے فوری وحی نازل ہو جاتی تھی۔ البتہ غصے کی حالت میں برا بھلا کہنے کی صورت میں کسی دوسرے شخص کا حق متاثر ہو سکتا ہے؛ جیسے کہ یہاں مذکورہ حدیث میں ہوا ہے تاہم اس کا نتیجہ پھر بھی اچھا ہی ہے؛ کیونکہ اگر آپ نے غصے کی حالت میں کسی غیر مستحق کو برا بھلا کہا تو یہ اس کے لیے روزِ قیامت پاکیزگی، اجر اور قرب الہی کا باعث ہو گا، اسی چیز کا اللہ تعالی نے مذکورہ احادیث میں وعدہ کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہو سکتا ہے کہ کوئی شدید جذباتی اور ہوس پرست شخص ان احادیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعظیم کے نام پر مسترد کر دے، اور یہ سمجھے کہ ایسی احادیث نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان پر آنا بھی ممکن نہیں! لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح صحیح حدیث کو مسترد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے؛ کیونکہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے، بلکہ یہ روایت تو ہمارے ہاں متواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے؛ اس لیے اس حدیث کو امام مسلم نے سیدہ عائشہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے جیسے کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، اسی طرح یہ ابو ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے، نیز سلمان، انس، سمرہ، ابو طفیل سمیت ابو سعید خدری اور دیگر صحابہ کرام سے بھی مروی ہے، اس کی تفصیلات کے لیے آپ " کنز العمال " ( 2 / 124 ) دیکھیں۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شرعی طریقے سے تعظیم کا انداز یہی ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے جو کچھ بھی صحیح ثابت ہے اس کی سچے دل سے تصدیق کریں، تبھی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کسی بھی کمی یا بیشی کے بغیر ایمان لا سکیں گے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کتاب و سنت کی گواہی کے مطابق بشر ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ساری بشریت کے سربراہ اور صحیح احادیث کی روشنی میں افضل ترین بشر بھی ہیں، آپ کی افضیلت پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت ،ساری زندگی واضح ترین گواہ ہے، اللہ تعالی نے آپ کو ایسے اعلی اخلاق اور بلند خوبیوں سے نوازا تھا کہ کسی بھی انسان کو یہ اخلاق اور خوبیاں میسر نہیں ہوئیں، بلکہ اللہ تعالی نے خود ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے سچ فرمایا کہ:
وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيْمٍ
ترجمہ: اور بیشک آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔[القلم: 4] " ختم شد
ماخوذ از: " السلسلہ الصحیحہ" (رقم/84)
چہارم:
اہل علم نے مذکورہ حدیث اور دیگر اس جیسی احادیث کی اور اعلی اخلاقیات و امت کے ساتھ شفقت پر مشتمل متواتر و قطعی احادیث کے درمیان تطبیق بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ احادیث بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کس قدر اپنی امت پر مہربان تھے، آپ اپنی امت کا کتنا بھلا کرتے تھے، اور ان کی خیر خواہی کرتے تھے، نیز آپ اپنی امت کے لیے ہر مفید کام کی رغبت رکھتے تھے۔
یہ جو آخری روایت ہے یہ باقی مطلق روایات کی مراد بیان کرتی ہے، اور واضح کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بد دعا اس شخص کے لیے رحمت، کفارہ اور پاکیزگی جیسے دیگر فوائد کا باعث بنتی ہے، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو اور بد دعا ، لعن طعن کا مستحق نہ ہو۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفار او رمنافقوں کے بارے میں بد دعا بھی کی ہے اور ان کے بارے میں کی گئی بد دعائیں ان کے لیے رحمت نہیں بنیں۔
اگر اعتراض کرتے ہوئے کہا جائے کہ: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص بد دعا ، یا برا بھلا کہلوانے یا لعن طعن کا مستحق ہی نہیں ہے تو آپ اس پر کیسے یہ سب کچھ کر سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب وہی ہے جو علمائے کرام نے دیا ہے، ان جوابات کا خلاصہ دو باتیں ہیں:
پہلی بات:اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو اللہ تعالی کے ہاں اور حقیقی طور پر برا بھلا کہلوانے کے مستحق نہیں ہیں، تاہم ان کی ظاہری حالت ایسی ہے کہ جن سے وہ برا بھلا کہلوانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں، تو اس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے شرعی اصولوں کی رو سے ان کی ظاہری حالت ہوتی ہے اور وہ زد و کوب کے مستحق ٹھہرتے ہیں، لیکن حقیقی طور پر وہ ڈانٹ ڈپٹ اور برا بھلا کہلوانے کا حقدار نہیں ہوتا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ظاہری حالت دیکھنے کے مکلف ہوتے ہیں جبکہ باطنی اور حقیقی امور تو اللہ تعالی کے سپرد ہوتے ہیں۔
دوسری بات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جن لوگوں کو بھی بد دعا دی ہے یا برا بھلا کہا ہے وہ در حقیقت مقصود ہی نہیں ہوتا، بلکہ عرب کی عادت ہے کہ وہ ان الفاظ کو ان کے معانی ذہن میں رکھے بغیر اپنی گفتگو میں بولتے ہیں، جیسے کہ کہا جاتا ہے: " تَرِبَتْ يَمِينك " یعنی تیرا دایاں ہاتھ خاک میں مل جائے۔ "عَقْرَى حَلْقَى"یعنی:تباہ و برباد ہو اور گنجی ہو جائے۔ اور اس حدیث میں آیا ہے کہ: " لَا كَبِرَتْ سِنّك " یعنی:تیری عمر لمبی نہ ہو، اور اسی طرح سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فرمایا: " لَا أَشْبَعَ اللَّه بَطْنك "یعنی: اللہ کرے تیرا پیٹ نہ بھرے۔ ان تمام تر محاوروں میں بد دعا مراد ہی نہیں لی جاتی، لیکن پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ محاورے بولتے ہوئے قبولیت کا وقت نہ ہو، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالی سے دعا فرمائی کہ ایسے محاوروں کو بھی اللہ تعالی رحمت، گناہوں کی بخشش، قرب الہی، اجر اور گناہوں سے پاکیزگی کا باعث بنا دے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان محاوروں کو بہت کم اور شاذ و نادر ہی استعمال کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ خوبی تھی کہ آپ فحش گو ، تکلف سے فحش گوئی کرنے والے نہیں تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بہت زیادہ لعنت بھی نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام لیتے تھے۔ اس بارے میں پہلے یہ حدیث گزر چکی ہے کہ لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! دوس قبیلے کے خلاف بد دعا کر دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یا اللہ! دوس قبیلے کو ہدایت عطا فرما) نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی قوم کے بارے میں فرماتے تھے: (یا اللہ! میری قوم کو معاف فرما دے، یہ حقیقت سے آشنا نہیں ہیں) واللہ اعلم" ختم شد
ماخوذ از: شرح مسلم: (16/152)
اسی طرح ابن الاثیر رحمہ اللہ نے بھی ایک حدیث کی شرح میں مذکورہ اعتراض جیسے امور پر گفتگو کی ہے، آپ کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے صادر ہونے والی دعا میں دو قول ہیں:
پہلا قول: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سائل کی طمع اور پر زور سوال پر تعجب ہوا۔
دوم: جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے حرص اور لالچ میں ڈوبا ہوا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہ تقاضائے بشریت اس پر بد دعا فرما دی، اب ایک اور حدیث میں ہے کہ : (یا اللہ! میں بشر ہوں، اس لیے اگر میں نے کسی کے خلاف بد دعا کی ہے تو میری دعا کو اس کے لیے رحمت بنا دے)" ختم شد
ماخوذ از: " النهاية في غريب الحديث " (1/71)
مزید کے لیے ابن مفلح کی کتاب: " الآداب الشرعية " (1/81-83، 343-344)کا مطالعہ کریں۔
نصوص کے ظاہر سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ: ان میں مذکور لعنت، گالی، اور مار پیٹ کا تذکرہ اگر ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو اس کے حقدار نہیں تھے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذاتی اجتہاد اور ظاہری علامات پر حکم لگانے کے قبیل سے ہے ، لیکن حقیقت میں وہ شخص ان کا حقدار نہیں ٹھہرتا تھا، حکم اس لیے صادر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بشر تھے اور غیب نہیں جانتے تھے۔
یا پھر یہ حکم بہ تقاضائے بشریت غصے کی حالت میں صادر ہوئے ہیں، تو غصے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کسی ایسے شخص پر بھی غضبناک ہو گئے جو حقیقت میں قصور وار نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ انہی احادیث میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ: (میں بشر ہی ہوں)۔ لیکن پھر بھی ان سخت جملوں کا نتیجہ اچھا ہی ہے اس لیے کہ جو شخص لعنت اور برا بھلا کہلوانے کا حقدار نہیں تھا اس کے بارے میں اللہ تعالی نے برعکس وعدہ کر رکھا ہے کہ یہ سب چیزیں اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی اور قربِ الہی کا باعث ہوں گی، اس طرح ایسے شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ذمے کوئی حق یا تلافی باقی نہیں رہے گی، بلکہ یہ اس کے لیے نعمت اور بلندی درجات کا باعث ہو گی۔
مزید کے لیے دیکھیں: علامہ ذہبی ؒ کی کتاب: " سير أعلام النبلاء " (3/123-124، 14/130)
واللہ اعلم