مقتدیوں کا امام کے پیچھے چھ رکعتوں میں آمین با آواز بلند کہنا اور گیارہ رکعتوں میں آہستہ آواز سے کہنا کس حدیث میں آیا ہے، وضاحت فرمائیں؟
ترمذی میں حدیث ہے:
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِیَّ ﷺ قَرَأَ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَ ، وَقَالَ آمِیْنَ ، وَمَدَّ بِھَا صَوْتَه
’’ وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ’’ غیر المغضوب علیھم ولا الضّآلّین ‘‘پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے آمین کہی۔ ( ترمذی، الصلاة، باب ماجاء فی التامین ، ابو داؤد، الصلاة، باب التامین وراء الامام) ترمذی نے حسن جبکہ ابن حجر اور دار قطنی نے صحیح کہا ہے۔‘‘
اور معلوم ہے کہ سماع و سننا جہری چیز کا ہی ہوتا ہے اور صحیح سنن ابن ماجہ میں ہے:
عَنْ عَائِشَة عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: مَا حَسَدَتْکُمُ الْیَھُوْدُ عَلٰی شَیْئٍ مَّا حَسَدَتْکُمْ عَلَی السَّلاَمِ ، وَالتَّأْمِیْنِ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس قدر یہودی سلام اور آمین سے چڑتے ہیں۔ اتنا کسی اور چیز سے نہیں چڑتے۔‘‘ پس تم کثرت سے آمین کہنا۔اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔ ‘‘
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «إِذَا اَمَّنَ القَارِئُ فَاَمِّنُوْا »
’’ جب قاری آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔‘‘
تو ان تینوں حدیثوں کو ملانے سے مقتدیوں کا امام کے پیچھے چھ رکعتوں میں آمین بآواز بلند کہنا ثابت ہوا۔ باقی گیارہ رکعات میں ذکر و دعاء میں اصول قرآنی پر عمل کرتے ہوئے آمین سراً و خفیۃً ہوگی۔