نجران کے عیسائیوں کا مسجد نبوی میں عبادت کرنے کا واقعہ سنداً صحیح ثابت نہیں ہے، لہذا اس سے فقہی مسائل اخذ کرنا درست نہیں۔
مشمولات
الحمد للہ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں نجران کے عیسائیوں نے اپنی نماز ادا کی؛ یہ بات جس واقعے میں آتی ہے وہ واقعہ ضعیف ہے، اس کی سند صحیح نہیں ہے، اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
اس واقعے کی تین سندیں ہیں، اور تینوں ہی صحیح نہیں ہیں:
پہلی سند:
یہ سند سیرت ابن اسحاق : (1/574) میں موجود ہے، اور اسی سند سے اس واقعے کو ابن جریر طبری ؒ نے تفسیر طبری: (2/171) اور ثعلبیؒ نے اپنی تفسیر : "الكشف والبيان" (3/6) میں بیان کیا ہے کہ :
"محمد بن جعفر بن زبیرؒ کہتے ہیں: جب عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ میں آئے تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تو آپ ابھی عصر کی نماز سے فارغ ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے اوپر دھاری دار چادریں ، چُوغے اور عبائے لیے ہوئے تھے اور وہ بنو حارث بن کعب کے شتربانوں کے ہمراہ تھے۔ راوی کہتے ہیں: اس دن جن چند صحابہ کرام نے انہیں دیکھا تھا ان کا کہنا تھا کہ: ہم نے اس جیسا وفد پہلے نہیں دیکھا ۔ ان کی نماز کا وقت ہو گیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انہیں اپنی نماز پڑھنے دو) تو انہوں نے مشرق کی جانب رخ کر کے نماز اد اکی تھی۔"
یہ روایت منقطع بھی ہے اور معضل بھی ہے؛ کیونکہ محمد بن جعفر بن زبیر بن عوام تبع تابعی ہیں اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم اس سند میں مسلسل دو واسطے گرے ہوئے ہیں۔
دوسری سند:
یہ سند ثعلبیؒ نے اپنی تفسیر : "الكشف والبيان" (3/6) میں بیان کی ہے جس میں محمد بن مروان سدی ، کلبی سے روایت کرتے ہیں۔
اس سند میں محمد بن مروان سدی صغیر ہے، جو کہ متروک اور متہم بالکذب راوی ہے۔
اس کے بارے میں امام بخاریؒ "الضعفاء الصغير" (340) میں کہتے ہیں:
{ سكتوا عَنهُ لَا يكْتب حَدِيثه أَلْبَتَّة } یعنی: محدثین نے اس کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے اور اس کی حدیث کسی صورت میں نہیں لکھی جا سکتی۔
اسی طرح امام نسائیؒ "الضعفاء والمتروكون" (538) میں کہتے ہیں:
{ متروك الحديث } یعنی یہ ایسا راوی ہے جس کی روایات ترک کر دئی گئی ہیں۔
جبکہ امام ابو حاتم ؒ "الجرح والتعديل" (8/86) میں کہتے ہیں:
{ ذاهب الحديث متروك الحديث لا يكتب حديثه البتة } یعنی: اس کی احادیث کسی کام کی نہیں ہیں، سب نے اس کی احادیث ترک کی ہوئی ہیں، اس کی کوئی حدیث کسی صورت نہ لکھی جائے۔
نیز ابن حبانؒ "المجروحين" (2/286) میں کہتے ہیں:
{ كَانَ مِمَّن يروي الموضوعات عَن الْأَثْبَات لَا يحل كِتَابَة حَدِيثه إِلَّا عَلَى جِهَة الِاعْتِبَار وَلَا الِاحْتِجَاج بِهِ بِحَال من الْأَحْوَال} یعنی: یہ شخص ثقہ راویوں کی طرف خود ساختہ روایات منسوب کر کے بیان کیا کرتا تھا اس کی روایت صرف اعتبار کے لیے لکھی جا سکتی ہے، بطور دلیل کسی بھی صورت میں نہیں لکھی جا سکتی۔
تیسری سند:
یہ سند بھی ثعلبیؒ نے اپنی تفسیر : "الكشف والبيان" (3/6) میں بیان کی ہے جس میں عبد اللہ بن ابو جعفر رازی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں اور وہ ربیع بن انس ؒ سے ۔
تو یہ سند بھی منقطع اور ضعیف ہے؛ کیونکہ ایک تو ربیع بن انسؒ صدوق درجے کے تابعی ہیں، چنانچہ ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت مرسل ہے۔ نیز اس روایت میں ربیع بن انس کے شاگرد ابو جعفر رازی ہیں؛ اور ابو جعفر کی ربیع سے روایات ضعیف بھی ہیں اور مضطرب بھی۔
اس لیے کہ ابن حبان رحمہ اللہ اپنی کتاب "الثقات" (4/228) میں ربیع بن انس کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: "اہل علم ربیع بن انس کی ان روایت سے پرہیز کرتے ہیں جنہیں ابو جعفر بیان کرے؛ کیونکہ ان روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے۔"
اس طرح کی حدیث سے یہ جواز کشید کرنا صحیح نہیں ہے کہ غیر مسلموں کو مسجد میں کفریہ شعائر بجا لانے کی اجازت دی جائے، انہی کفریہ شعائر میں ان کی نماز قطعی طور پر شامل ہے؛ کیونکہ اللہ کے گھروں میں غیر مسلموں کے شرکیہ عمل کو تسلیم کرنا جائز نہیں ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
ترجمہ: یقیناً مساجد اللہ تعالی کے لیے ہیں، لہذا اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔[الجن: 18]
لہذا قرطبی رحمہ اللہ "الجامع لأحكام القرآن" (19/22) میں کہتے ہیں:
"فرمانِ باری تعالی: فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا ترجمہ: لہذا اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔[الجن: 18] یہاں مشرکوں کو ڈانٹ پلائی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ غیر اللہ کو مسجد الحرام میں پکارتے ہیں۔ امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہود و نصاری جب اپنے گرجا گھروں اور عبادت گاہوں میں داخل ہوتے تو اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہراتے تھے، تو اللہ تعالی نے اپنے نبی -صلی اللہ علیہ و سلم -اور اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ جب بھی کسی بھی مسجد میں داخل ہوں تو صرف اللہ کو پکاریں، گویا کہ اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ: تم مساجد میں بت یا کوئی بھی چیز جو غیر اللہ میں آئے اور اس کی عبادت کی جاتی ہو تو اسے مت پکارو۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ مساجد اللہ کے ذکر کے لیے مختص رکھو، مساجد کو لغو سرگرمیوں، کاروبار اور بیٹھک کے طور پر مت استعمال کرو، نہ ہی انہیں گزرگاہ بناؤ اور نہ ہی غیر اللہ کے لیے مساجد میں کوئی حصہ رکھو۔" ختم شد
اسی طرح ابن رجب رحمہ اللہ "فتح الباری" (3/243) میں کہتے ہیں:
"جس طرح مساجد میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو بالکل اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ کافروں کی عبادت گاہوں میں اپنی نماز ادا کریں جہاں کافر کفریہ عبادات کرتے ہیں۔
یہاں اگر کوئی کہے کہ: کچھ روایات میں آتا ہے کہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کی مساجد میں نماز ادا کرنے کی اجازت دی گئی؛ لہذا اگر غیر مسلموں کو مسلمانوں کی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے تو مسلمانوں کے لیے بالاولی جائز ہو گا کہ وہ غیر مسلموں کے گرجا گھروں اور عبادت خانوں میں اپنی نمازیں ادا کریں۔
جیسے کہ ابن اسحاق نے روایت کیا ہے کہ محمد بن جعفر بن زبیرؒ کہتے ہیں: جب نجران کا عیسائی وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس مدینہ میں آیا تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس یہ وفد پہنچا تو آپ ابھی عصر کی نماز سے فارغ ہوئے تھے۔ وفد نے اپنے اوپر دھاری دار کپڑے : یعنی چُوغے اور عبائے لیے ہوئے تھے ۔ راوی کہتے ہیں: جن صحابہ کرام نے انہیں دیکھا تھا ان کا کہنا تھا کہ: ہم نے ان جیسا وفد ان کے بعد کبھی نہیں دیکھا ۔ جب ان کی نماز کا وقت ہو گیا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (انہیں اپنی نماز پڑھنے دو) تو انہوں نے مشرق کی جانب رخ کر کے نماز اد اکی۔
تو اس حدیث کے بارے میں یہ ہے کہ یہ منقطع اور ضعیف ہے، ایسی روایت کو بطور دلیل پیش نہیں جا سکتا۔
اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو پھر اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس وقت تالیفِ قلبی کرنا چاہی تھی کہ ان دلوں کو اپنی جانب مائل کریں اور انہیں اسلام سے متنفر نہ کریں، تو اب جب ایسی کوئی ضرورت نہیں ہے تو ایسا اقدام کرنے کی گنجائش بھی نہیں ہے ۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے غیر مسلموں کے ساتھ اہل ذمہ کا معاہدہ کرتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ ذمی اپنا دین چھپائیں گے، اور اسی میں یہ چیز شامل تھی کہ نمازوں میں آوازیں بلند نہیں کریں گے، اور جب مسلمان قریب ہوں تو نماز میں تلاوت اونچی آواز سے نہیں کریں گے۔" ختم شد
مسجد الحرام کے علاوہ مشرک کسی مسجد میں داخل ہو تو اس حوالے سے کچھ تفصیلات ہیں اور اہل علم کی مختلف آرا بھی ہیں، تاہم اگر کسی شرعی مصلحت کی وجہ سے مسلمان کی اجازت کے ساتھ مسجد میں داخل ہو تو جائز ہے۔
لیکن اللہ کے گھر میں کفریہ عبادات کرنے کی اجازت بھی دی جائے تو یہ قطعی طور پر جائز نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ "الكافي" (4/176)میں کہتے ہیں:
"حدود حرم سے باہر جتنی بھی مساجد ہیں ان میں کوئی بھی غیر مسلم کسی مسلمان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا، اگر کوئی بغیر اجازت داخل ہو گیا تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔ کیونکہ ام غراب کہتی ہیں کہ : میں نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ منبر پر تھے کہ انہیں ایک مجوسی مسجد کے احاطے میں نظر آیا تو آپ منبر سے اترے اور مجوسی کو زد و کوب کیا اور اسے کندہ کے دروازے سے باہر نکال دیا۔
چنانچہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو مسجد میں آنے کی اجازت دے دے تو صحیح حنبلی موقف کے مطابق جائز ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس طائف کا وفد آیا تو انہیں مسلمان ہونے سے پہلے مسجد میں ٹھہرایا تھا۔
اور ان سے مروی ہے کہ جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عیاض الاشعری بیان کرتے ہیں کہ ابو موسی رضی اللہ عنہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ان کے ساتھ ایک عیسائی بھی تھا؛ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی لکھائی اچھی لگی اور ابو موسی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کاتب کو کہو کہ اپنی تحریر پڑھ کر سنائے۔ تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ مسجد میں نہیں آ سکتا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیوں؟ کیا یہ جنبی ہے؟ تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے جواب میں بتلایا: یہ عیسائی ہے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اسے روک دیا۔
اسی طرح جب جنبی مسجد میں نہیں آ سکتا تو مشرک بالاولی مسجد میں نہیں آ سکتا۔" ختم شد
خلاصہ کلام:
یہ واقعہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے، اور اس سے کوئی فقہی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
واللہ اعلم