الحمد للہ.
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے واضح فرمایا ہے کہ ہم نے کچھ انبیائے کرام کو خصوصی درجہ عطا فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِمَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيِّينَ عَلَى بَعْضٍ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُوراً
ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہے تیرا رب انہیں بہترین انداز سے جانتا ہے، یقیناً ہم نے کچھ انبیائے کرام کو دیگر پر فضیلت دی ، اور ہم نے داود کو زبور عطا کی۔[الاسراء: 55]
امت کا اجماع ہے کہ رسولوں کا مقام انبیائے کرام سے افضل ہے، اور پھر رسولوں کے درمیان بھی درجہ بندی ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے اس کی وضاحت فرمائی:
تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَلَوْ شَاء اللّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِن بَعْدِهِم مِّن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَـكِنِ اخْتَلَفُواْ فَمِنْهُم مَّنْ آمَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ وَلَوْ شَاء اللّهُ مَا اقْتَتَلُواْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
ترجمہ: ان رسولوں کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت دی۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام کیا اور کچھ وہ ہیں جن کے درجات بلند کیے، اور عیسی ابن مریم کو روشن نشانیاں عطا کیں اور ان کی روح القدس سے مدد کی۔ اور اگر اللہ تعالی چاہتا تو ان رسولوں کے بعد لوگ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کرتے جبکہ ان کے پاس واضح احکام بھی آ چکے تھے۔ لیکن انہوں نے آپس میں اختلاف کیا پھر کوئی تو ان احکام پر ایمان لایا اور کسی نے انکار کر دیا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں لڑائی جھگڑے نہ کرتے۔ لیکن اللہ تو وہی کچھ کرتا ہے، جو وہ چاہتا ہے ۔[البقرۃ: 253]
نبی اور رسول میں فرق جاننے کے لیے سوال نمبر: (5455 ) اور (11725 ) کا مطالعہ کریں۔
ان کے بعد افضل ترین انبیائے کرام اور رسول پانچ ہیں:
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسی، اور سیدنا عیسی علیہم الصلاۃ والسلام
ان تمام رسولوں کو اولوالعزم پیغمبر کہا جاتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ
ترجمہ: آپ بھی اسی طرح ڈٹ جائیں جیسے رسولوں میں سے اولو العزم پیغمبر ڈٹ گئے، اور ان کے لیے جلد بازی نہ کریں۔ [الاحقاف: 35]
پھر ان اولو العزم پیغمبروں کا نام قرآن کریم میں دو جگہ آیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقاً غَلِيظاً
ترجمہ: اور جب ہم نے انبیائے کرام سے انہی کا وعدہ لیا، اور آپ سے بھی اور نوح، ابراہیم، موسی، اور عیسی ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سے پختہ وعدہ لیا۔ [الاحزاب: 7]
دوسری جگہ اللہ تعالی نے فرمایا:
شَرَعَ لَكُم مِّنَ الدِّينِ مَا وَصَّى بِهِ نُوحاً وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَن يُنِيبُ
ترجمہ: اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں فرقہ واریت میں مت پڑنا۔ آپ ان مشرکوں کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں وہ ان پر گراں گزرتی ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنے لئے چن لیتا ہے اور اپنی طرف سے اسی کو راہ دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ [الشوری: 13]
ان میں سے بھی کچھ کو اللہ تعالی خصوصی عنایتوں سے نوازا، جن کی بدولت ان کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوا، چنانچہ اس حوالے سے امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر : (3/249) میں کہتے ہیں:
"کچھ پیغمبروں کا دیگر پر فضیلت پانے کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہیں بقیہ سے بڑھ کر فضیلت کے ذرائع اور وسائل سے نوازا تھا۔" ختم شد
چنانچہ سیدنا نوح علیہ السلام کو خصوصی فضیلت حاصل ہوئی کہ انہیں اہل زمین کی جانب سب سے پہلے رسول بنا کر بھیجا گیا اور اللہ تعالی نے انہیں "شکر گزار بندہ " قرار دیا۔
اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنا خلیل بنایا، فرمانِ باری تعالی ہے: واتَّخَذَ اللّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً ترجمہ: اور اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ [النساء: 125] آپ کو ہی اللہ تعالی نے لوگوں کے لیے پیشوا مقرر کیا، فرمانِ باری تعالی ہے: قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً ترجمہ: اللہ نے فرمایا: میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ [البقرۃ: 124]
موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف دیا، فرمانِ باری تعالی ہے:
قَالَ يَا مُوسَى إِنِّي اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالاَتِي وَبِكَلاَمِي فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ
ترجمہ: اللہ تعالی نے فرمایا: اے موسی! میں نے تمہیں اپنی رسالت اور ہم کلامی کے ذریعے لوگوں سے چنیدہ بنایا ہے، اب میں نے تمہیں جو دیا ہے اسے تھام اور شکر گزاروں میں شامل رہ۔ [الاعراف: 144]
اسی طرح اللہ تعالی نے انہیں اپنے لیے خاص کر لیا تھا، اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:
وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي
ترجمہ: اور میں نے تجھے اپنے لیے خاص کر لیا ہے۔[طہ: 41]
پھر اللہ تعالی نے اپنی آنکھوں کے سامنے پروان چڑھایا، اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَلِتُصْنَعَ عَلَى عَيْنِي
ترجمہ: اور تا کہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔[طہ: 39]
سیدنا عیسی علیہ السلام کو رسول بنا کر فضیلت عطا فرئی، انہیں اپنا کلمہ کہتے ہوئے سیدہ مریم کی طرف ان کا القا کیا، اپنی روح قرار دیا، آپ نے لوگوں سے بچپن میں بات کی۔
ایک اور اعتبار سے بھی انبیائے کرام میں درجہ بندی پائی جاتی ہے، اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (35/34) میں کہتے ہیں:
"تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کبھی نبوت میں ملوکیت بھی شامل ہوتی ہے: کیونکہ اللہ کے بھیجے گئے نبی کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں:
الف: ان کی تکذیب کی جائے، کوئی ان پر ایمان نہ لائے اور نہ ہی کوئی ان کی اطاعت کرے، تو وہ ایسے نبی ہیں جنہیں ملوکیت نہیں دی گئی۔
ب: صاحب نبوت کے پیروکار ہوں، تو کسی نبی کے پیروکار بھی ہوں تو یہی ملوکیت ہے۔ لیکن اگر نبی اپنے پیروکاروں کو صرف وہی حکم دیتا ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے دیا جاتا ہے تو ایسے نبی کو ملوکیت نہیں دی گئی بلکہ وہ رسول اور عبد ہیں، ان کے پاس بادشاہت والے اختیارات نہیں ہیں۔
ج: اور اگر کوئی نبی جائز احکامات اپنی طرف سے بھی دے سکتا ہوں، تو ایسے نبی کو ملوکیت بھی دی گئی ہوتی ہے، جیسے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں ہے:
هذا عطاؤنا فامنن أو أمسك بغير حساب
ترجمہ: یہ ہماری عطا ہے تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے تجھ پر کوئی حساب نہیں [ص: 39] لہذا آپ نبی بھی تھے اور آپ کو ملوکیت بھی دی گئی تھی۔
تو یہاں پر "بادشاہ نبی" کے مد مقابل "رسول عبد" آتا ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی کہا گیا تھا کہ: (آپ یا تو "رسول عبد" بننا پسند کریں یا "بادشاہ نبی" بننا پسند کریں۔) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے "رسول عبد" بننا پسند کیا تھا لیکن اس کے باوجود آپ کو فرمانروائی ملی، آپ کی اللہ تعالی کی طرف سے مدد کی گئی اور آپ کے پیروکار بھی بنے۔ جس کا فائدہ آپ کو یہ بھی دیا گیا کہ آپ پیش رو اور پیش وا تھے لہذا آپ کے پیروکاروں کا اجر بھی آپ کو ملا، پھر آپ کے عبدیت کے حامل رسول ہونے کا یہ بھی فائدہ ہوا کہ لوگ آپ سے مستفید ہوئے، آپ کی بدولت لوگوں پر رحم کیا گیا، اور لوگوں کی وجہ سے آپ پر رحم کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بادشاہ بننا پسند نہیں کیا کہ مبادا آخرت میں اجر کم نہ ہو جائے؛ کیونکہ بادشاہت میں دولت اور ریاست دونوں ہوتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالی کے ہاں عبدیت کا حامل رسول ملوکیت کے حامل نبی سے افضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی بن مریم علیہم السلام کا مقام داود، سلیمان اور یوسف علیہم السلام سے بلند ہے۔" ختم شد
چنانچہ مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں ہم اللہ تعالی کے ہاں انبیائے کرام کے درجات یوں بیان کر سکتے ہیں کہ سب سے افضل ترین مقام اور مرتبہ اولو العزم پیغمبروں کا ہے، اور ان میں سے افضل ترین ہمارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سربراہ ہوں، اور سب سے پہلے میری قبر ہی شق ہو گی ، اور سب سے پہلے میں سفارش کروں گا اور سب سے پہلے میری ہی سفارش قبول کی جائے گی۔) صحیح مسلم: (4223)
اس کے علاوہ انبیائے کرام کی فضیلت اور درجات میں ترتیب کے حوالے سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں کچھ نہیں ہے، نہ ہی مسلمان کو ان کی ضرورت ہے کہ اس بارے میں کھوج لگائے؛ یہی وجہ ہے کہ عقیدہ اور اصول دین کی کتابوں میں اہل علم نے اس کے متعلق گفتگو نہیں کی۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (7459 ) اور (10669 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:89814