الحمد للہ.
اول:
انسان اس وقت مومن نہیں بن سکتا جب تک اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان نہیں لاتا، فرمانِ باری تعالی ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ
ترجمہ: رسول پر جو کچھ اس کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا، اس پر وہ خود بھی ایمان لایا اور سب مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔ [البقرۃ: 285]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کے پاس جبریل آئے اور پوچھا: ایمان کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ( ایمان یہ ہے کہ آپ اللہ تعالی پر، اللہ کے فرشتوں پر، اللہ کی کتابوں پر ، اللہ سے ملنے پر، اللہ کے رسولوں پر اور دوبارہ جی اٹھنے پر یقین رکھیں۔)اس حدیث کو امام بخاری: (50) اور مسلم : (9) نے روایت کیا ہے۔
قرآن کریم، تورات، انجیل اور زبور یہ سب کتابیں اللہ تعالی کی طرف سے اپنے رسولوں پر نازل شدہ ہیں، ان پر ایمان لانا لازم ہے، اور اگر کوئی شخص ان کتابوں میں سے کسی کتاب کا انکار کرے تو وہ اللہ تعالی کا منکر ہے۔
دوم:
اللہ تعالی کا کوئی کلام مخلوق نہیں ہے، تورات، انجیل ، قرآن اور زبور حقیقی طور پر اللہ تعالی کا کلام ہے، اسی لیے قرآن کا کوئی حرف بھی مخلوق نہیں ہے، سارے کا سارا قرآن ہی حقیقت میں اللہ تعالی کا کلام ہے۔ اسی طرح تورات، انجیل اور زبور کا معاملہ ہے۔ جس طرح ہم اللہ تعالی کے رسولوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے اسی طرح اللہ تعالی کی کتابوں پر ایمان لانے میں بھی کوئی تفریق نہیں کرتے، یہ سب کتابیں اللہ تعالی کا کلام ہیں۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
ترجمہ: کیا تم ان سے یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری خاطر ایمان لائیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے ہیں۔ پھر اس کو سمجھ لینے کے بعد دیدہ دانستہ اس میں تحریف کر ڈالتے ہیں ۔[البقرۃ: 75]
تو یہاں پر یہودیوں کا تذکرہ ہے کہ وہ تورات میں تبدیلیاں کر دیتے تھے، اور اسی تورات کو اللہ تعالی کلام اللہ کہا ہے۔
صحیح مسلم: (2652) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سیدنا آدم اور سيدنا موسی علیہما السلام نے (ایک دوسرے کو) اپنی اپنی دلیلیں دیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آدم! آپ ہمارے والد ہیں، آپ نے ہمیں ناکام کر دیا اور ہمیں جنت سے باہر نکال دیا۔ تو سیدنا آدم علیہ السلام نے فرمایا: تم موسیٰ ہو، تمہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ہم کلامی کے لیے منتخب فرمایا اور اپنے ہاتھ سے تمہارے لیے تورات لکھی ، کیا تم مجھے اس بات پر ملامت کر رہے ہو جسے اللہ تعالیٰ نے مجھے پیدا کرنے سے بھی چالیس سال پہلے میرے مقدر میں لکھ دیا تھا؟" ) تو اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تو آدم علیہ السلام [دلیل میں] موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے، آدم علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام پر غالب آ گئے۔)"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحابہ کرام اور تابعین عظام پر مشتمل سلف صالحین اور بعد میں آنے والے تمام ائمہ کرام جیسے کہ ائمہ اربعہ اور دیگر ائمہ ہیں ان سب کا وہی موقف ہے جو کتاب و سنت میں موجو دہے، انہی کا موقف صریح عقلی دلائل کے ساتھ بھی موافقت رکھتا ہے کہ: قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے اور مخلوق نہیں ہے، اس کا آغاز اللہ تعالی سے ہوا اور اسی کی طرف واپس لوٹے گا۔ قرآن، تورات، انجیل اور دیگر کتابیں اللہ تعالی حقیقی کلام ہیں، یہ تمام کلام مخلوق اور اللہ تعالی سے جدا نہیں ہے۔ ذات باری تعالی اپنی مشیئت اور قدرت سے جب چاہتا ہے کلام فرماتا ہے، اللہ تعالی کا کلام اللہ تعالی کی ذات کے ساتھ قائم ہے، کلام الہی مخلوق نہیں ہے نہ ہی اللہ تعالی سے جدا ہے ۔۔۔ اللہ تعالی کے کلام کی کوئی انتہا بھی نہیں ہے، اسی لیے فرمایا:
قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا
ترجمہ: کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقیناً سمندر ختم ہو جائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اتنی ہی اور روشنائی لے آئیں۔ [الکہف: 109]
اللہ تعالی نے قرآن کا عربی زبان میں اور تورات کا عبرانی زبانی میں کلام کیا۔۔۔" آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"اگر کوئی کلام الہی کو مخلوق قرار دے تو اس پر لازم آتا ہے کہ مخلوق نے ہی موسی علیہ السلام سے کہا تھا:
إنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إلَهَ إلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
ترجمہ: یقیناً میں ہی اللہ ہوں، میرے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں، تم میری ہی عبادت کر، اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔[طہ: 14]
اور ایسا ہو نہیں سکتا کہ بات اللہ کے علاوہ کسی اور نے کہی ہو۔
اگر اللہ تعالی قرآن اور تورات سمیت دیگر کتابوں کا بھی حقیقی متکلم ہے ان کے معانی، حروف سے جڑ کر بننے والے الفاظ اللہ تعالی کا حقیقی کلام ہیں تو پھر اللہ کے کلام میں سے کوئی بھی چیز مخلوق نہیں ہے، بلکہ وہ رب العالمین کا ہی کلام ہے۔۔۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (12/ 37-41) ، اسی طرح دیکھیں: "مجموع الفتاوى" (12/ 355-356)
الشیخ مصطفی رحیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی کے کلام، قرآن، یا قرآن کریم کی کسی سورت یا آیت کی قسم اٹھانا ؛ معتبر قسم ہے؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کا کلام اور اللہ تعالی کی صفت ہے ، چنانچہ اگر کوئی کلام الہی کی قسم اٹھائے یا کلام الہی میں سے کسی جزو کی قسم اٹھائے تو وہ اللہ تعالی کی کسی صفت کی قسم اٹھانے والا شمار ہو گا۔
اسی طرح کوئی اللہ تعالی کی کتاب تورات، انجیل اور زبور کی قسم اٹھائے تو یہ بھی معتبر قسم ہے اور اسے توڑنے پر کفارہ بھی دینا ہو گا؛ کیونکہ جب لفظ تورات ، انجیل اور زبور بولا جائے تو اس سے وہی کتاب مراد ہوتی ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی تھی، تحریف شدہ کتابیں مراد نہیں ہوتیں، نیز قرآن کریم کی وجہ سے ان کے منسوخ ہونے پر ان کا احترام پھر بھی ویسے ہی کیا جائے گا جیسے پہلے تھا، بالکل اسی طرح جیسے قرآن کریم کی منسوخ آیات کا مکمل احترام کیا جاتا ہے، منسوخ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب یہ اللہ تعالی کا کلام نہیں رہا۔ لہذا اگر یہ آیات اللہ تعالی کا کلام ہیں تو یہ قرآن کریم کی طرح اللہ تعالی کی صفت ہیں۔" ختم شد
"مطالب أولي النهى" (6/ 361)
الشیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیائے کرام پر کتابیں نازل فرمائیں، چنانچہ موسی علیہ السلام پر تورات نازل کی، عیسی علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی، اور داود علیہ السلام پر زبور نازل کی، اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام پر صحائف نازل فرمائے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ: صحف إبراهيم وموسى ترجمہ: ابراہیم اور موسی کے صحیفے۔[الاعلی: 19] تو بلا شک و شبہ یہ سب کتابیں اللہ تعالی کا کلام ہیں، اللہ تعالی نے ان کے ساتھ کلام فرمایا، اور اسی کلام میں شریعت، اوامر اور نواہی شامل فرمائے۔" ختم شد
"فتاوى الشيخ ابن جبرين" (63/ 117) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترقیم کے مطابق
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (145665 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
اسلام سوال وجواب
فتوی نمبر:197537