سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

ملحد کا دعوی ہے کہ: اگر اللہ کوئی چیز ہے تو وہ مخلوق ہو گی یا اس کا جوڑا بھی ہو گا

  • 26402
  • تاریخ اشاعت : 2024-09-17
  • مشاہدات : 67

سوال

سوال اللہ تعالی بھی کوئی مخلوق شے ہے؟ اور اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان بطور دلیل پیش کیا جائے: (اور ہم نے ہر شے سے اس کا جوڑا پیدا کیا)

الحمد للہ.

ہر ذی وجود چیز کو شے کہتے ہیں؛ یعنی مطلب یہ ہے کہ یہ چیز عالم مادی میں موجود ہے۔

تو چونکہ اللہ تعالی کی ذات بھی حقیقی طور پر موجود ہے؛ اس لیے اللہ تعالی نے اپنے بارے میں بتلایا کہ وہ بھی ایک شے ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً قُلِ اللَّهُ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ

ترجمہ: آپ کہہ دیں: کون سی شے گواہی کے لئے سب سے بڑی ہے؟ آپ کہہ دیں: اللہ ، وہی میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ [الأنعام: 19]

تو شے کا لفظ قدیم، حادث، واجب الوجود اور ممکن الوجود سب پر بولا جاتا ہے۔

بلکہ معنی اور مفہوم کے بارے میں بھی شے کا لفظ بولا جاتا ہے؛ کیونکہ یہ ذہن میں موجود ہوتے ہیں، جبکہ معدوم چیز جس کا ابھی وجود نہیں ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ کے علم میں موجود شے ہے، اگرچہ ابھی اس کا وجود نہیں ہے۔

جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری: (9/124) میں ایک عنوان قائم کیا ہے کہ:
" (باب: اللہ تعالی کا ارشاد : اے پیغمبر ! ان سے پوچھ کس شے کی گواہی سب سے بڑی گواہی ہے، آپ کہہ دیں: اللہ کی گواہی ) [تو یہاں پر اللہ تعالی نے اپنی ذات کو شے سے تعبیر کیا]۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قرآن کو شے کہا ہے ۔ حالانکہ قرآن بھی اللہ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:  كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ  ہر شے ختم ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے۔ [القصص: 88] " ختم شد

الشیخ عبد اللہ غنیمان حفظہ اللہ امام بخاری کے اس اندازِ تبویب پر کہتے ہیں:

"امام بخاری یہاں یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی کی ذات اور اللہ کی صفات پر شے کا اطلاق ہو سکتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ "شے" اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں شامل ہے! لیکن امام بخاری یہ بتلا رہے ہیں کہ اللہ تعالی بھی شے ہے، اسی طرح یہ بھی بتلا رہے ہیں کہ اللہ کی صفات بھی شے ہیں؛ کیونکہ وجود رکھنے والی کسی بھی چیز کے متعلق شے کا لفظ بولنا جائز ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: "شرح كتاب التوحيد من صحيح البخاري" (1/343)

اس بنا پر "شے" اللہ تعالی کے اسما میں شامل تو نہیں ہے، تاہم اللہ تعالی کے بارے میں لفظ "شے" بول کر بتلایا جا سکتا ہے۔ نیز اسما و صفات کے مقابلے میں اخبار کا معاملہ وسعت رکھتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالی کے بارے میں بتلاتے ہوئے شے، موجود، قدیم اور ازلی کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں تاہم یہ اللہ تعالی کے اسما میں شامل نہیں ہیں۔

جبکہ اللہ تعالی کے فرمان :

وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ: اور ہم نے ہر شے سے اس کا جوڑا پیدا کیا ، تا کہ تم نصیحت حاصل کرو۔ الذاريات:49]
اس کا مطلب یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے مثلاً : مذکر و مونث، سردی گرمی، دن اور رات وغیرہ

اس آیت کی تفسیر میں ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو جوڑا اور دو قسموں میں بنایا ہے، مثلاً: مرد و زن، بر و بحر، شب و روز، میٹھا کڑوا اور اندھیرا اجالا وغیرہ اس لیے بنائے کہ  لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ تا کہ تم نصیحت حاصل کرو، اور یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ ان تمام جوڑوں کا خالق ایک ہی ہے۔" ختم شد
"زاد المسير" (4/ 172)

تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت مخلوق کے بارے میں ہے، اور یہ بتلا رہی ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوقات کے اضداد پیدا کر کے ان کا جوڑا بنایا ہے۔

یہی موضوع قرآن کریم کی دیگر آیات میں بھی موجود ہے؛ جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

  وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى   اور بیشک اسی نے نر اور مادہ کے جوڑے بنائے۔ [النجم:45]

  فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى  پس اللہ نے اس سے نر اور مادہ کا جوڑا بنایا۔[القيامة:39]

 قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ  ہم نے اسے کہا کہ اس کشتی میں ہر ایک کے دو جوڑے سوار کر۔[هود:40]

اب ان دونوں باتوں کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کہ اللہ تعالی اپنے بارے میں فرما رہا ہے کہ وہ ایک شے ہے، جبکہ ملحد کہہ رہا ہے کہ اگر وہ شے ہے تو پھر اس کا جوڑا بھی ہو گا؟!

ایسے میں اس گمراہ اور جاہل کو کہا جائے گا کہ: اللہ تعالی نے یہاں پر مخلوقات میں جوڑوں کے پائے جانے کی خبر دی ہے؛ تو کیا اگر تمہاری عقل کام کرتی ہے تو یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ: اللہ خالق و مالک نے ہمیں اس آیت میں بتلایا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے سوا بھی دو خالق پیدا کیے ہیں؛ کیونکہ اللہ نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے؟!

تو کیا یہی تمہاری عقل اور فہم ہے؟!

حالانکہ آیت بڑے نپے تلے الفاظ میں اللہ تعالی کی قدرت بیان کر رہی ہے، یہ بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالی کائنات کا مختار کل ہے، اس کی قدرت، عظمت اور وحدانیت کا مظہر یہ بھی ہے کہ اس نے ہر چیز کے جوڑے بنائے ہیں۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ  ترجمہ: اور ہم نے ہر شے سے اس کا جوڑا پیدا کیا ۔ [الذاريات:49] یعنی مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوقات جوڑوں کی صورت میں ہیں: [مثلاً:] آسمان و زمین، شب و روز، سورج چاند، بر و بحر، اندھیرا اجالا، ایمان و کفر، موت اور حیات، بد بختی اور نیک بختی، جنت اور جہنم، بلکہ حیوانات اور نباتات میں بھی جوڑے ہیں ، جن و انس، نر اور مادہ، وغیرہ اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا:   لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ یعنی : تا کہ تم نصیحت حاصل کرو، مطلب یہ ہے کہ تا کہ تم اچھی طرح سمجھ لو کہ پیدا کرنے والا ایک ہی ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے" ختم شد
"تفسير ابن كثير" (7/424)

یہ بات یقینی ہے کہ خالق صرف ایک ہی ہو سکتا ہے، چنانچہ یہ نہیں ہو سکتا کہ خالق دو ہوں اور پھر کائنات کا نظام بھی چلتا رہے! کیونکہ ایک خالق دوسرے پر غالب آ جائے گا اور وہی یکتا پروردگار ہو گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَهٍ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ

ترجمہ: اللہ تعالی نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے۔ اگر ایسی بات ہوتی تو ہر الٰہ اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور ان میں سے ہر ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتا۔ اللہ تو ان باتوں سے پاک ہے۔ جو یہ لوگ بیان کرتے ہیں [المؤمنون: 91]

اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی اگر فرضی طور پر متعدد الٰہ  مان بھی لیے جائیں تو ہر الٰہ کی اپنی اپنی مخلوقات ہوتیں اور اور اس کے نتیجے میں وجود کائنات منظم نہ ہوتا، لیکن ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وجود کائنات بالکل منظم ہے اور علوی اور سفلی دونوں جہانوں میں ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی کمال کے ساتھ منسلک اور منسجم ہے ، حتی کہ آپ کو:  مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ  رحمان کی تخلیقات میں کوئی معمولی سا خلل بھی نظر نہیں آئے گا۔[الملك: 3] اور اگر کائنات میں متعدد الٰہ ہوتے تو سب ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کرتے اور ان کا یہ جھگڑا جاری و ساری رہتا" ختم شد

کوئی جاہل شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ: اگر اللہ تعالی اپنے آپ کو شے کہتا ہے تو پھر اللہ تعالی اپنے ہی فرمان :   اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ   اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا کارساز بھی ہے۔[الزمر: 62]

تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے: اللہ نے ہر مخلوق چیز کو پیدا کیا ہے، جبکہ اللہ تعالی کی ذات خالق ہے، اور خالق کبھی بھی کسی بھی صورت میں مخلوق نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ اگر خالق خود بھی مخلوق ہو ، پیدا کیا گیا ہو، کسی کی جانب سے بنایا گیا ہو تو پھر جس نے اس کو بنایا اور پیدا کیا ہے وہی خالق ہو گا، اور وہی اللہ  ہو گا!

اگر فرضی طور پر مان لیں کہ یہ دوسرا بھی مخلوق تھا تو وہ بھی خالق نہیں ہو سکتا، یہاں تک کہ یہ تسلسل مسلمہ حقیقت تک پہنچ جائے جو کہ یہ ہے کہ : خالق ایک ہی ہے جو کہ واجب الوجود ہے ، جس کا وجود ذاتی ہے، اس سے پہلے عدم نہیں تھا اور نہ ہی وہ فنا ہو گا، تو صرف وہی ذات تن تنہا خالق ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز مخلوق ہے، یہ سب مخلوقات اس کی عظمت کی پروردہ ہیں، خالق وہی اکیلا اور یکتا ہے۔ اسی حقیقت کو اہل ایمان اور دیندار لوگ "اللہ" کے نام سے جانتے ہیں وہ یکتا، تنہا ، اور بے نیاز ہے!!

اسی طرح اگر کوئی یہ کہے کہ: اللہ تعالی موجود ہے، اور ہر موجود چیز اللہ تعالی کی مخلوق ہے!

تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہر موجود چیز اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے ، جبکہ خالق کسی بھی صورت میں مخلوق نہیں ہو سکتا؛ جیسے کہ پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔

خلاصہ یہ ہوا کہ:

لفظ : "شے" اور "موجود " مشترک اسما میں سے ہیں جو کہ قدیم اور حادث دونوں طرح کی چیزوں پر بولے جاتے ہیں، اسی طرح یہ الفاظ خالق اور مخلوق پر بھی بولے جا سکتے ہیں۔

تاہم اس اطلاق سے کسی صاحب عقل کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ خالق اپنے آپ کو پیدا بھی کرتا ہے، اور اس کے لئے حجت یہ بتلائے کہ چونکہ وہ موجود ہے اس لیے اس کا پیدا ہونا بھی ضروری ہے! کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں کہ خالق اپنے آپ کو پیدا کرے، اس لیے کہ یہ نظریہ رکھنے سے دو متضاد چیزوں کا یکجا ہونا لازم آئے گا وہ دو چیزیں یہ ہیں: خالق سے پہلے عدم نہیں ہوتا ، جبکہ مخلوق سے پہلے عدم ہوتا ہے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (87677) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

اسلام سوال وجواب

فتوی نمبر:292268

تبصرے