سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(348) مدرک رکوع کا کیا حکم ہے؟

  • 2633
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1947

سوال

(348) مدرک رکوع کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص امام کو رکوع کی حالت میں پائے اور وہ بھی رکوع میں امام کے ساتھ مل جائے تو کیا اس شخص کی یہ رکعت شمار کی جائے گی؟ رکوع میں مل کر اس کو رکعت شمار کرنے والے یہ روایت پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز کے لیے آؤ اور امام رکوع میں ہو تو رکوع کرو اور اگر سجدے میں ہو تو سجدے میں مل جاؤ۔ جس سجدے کے ساتھ رکوع نہ ہو ، اس کو مت شمار کرو۔[بیہقی]


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صحیح احادیث تو مدرکِ رکوع کے مدرکِ رکعت ہونے پر دلالت نہیں کرتیں اور جو روایت مرفوعہ مدرکِ رکوع کے مدرکِ رکعت ہونے پر دلالت کرتی ہیں، وہ ثابت نہیں، جو روایت آپ نے بحوالہ بیہقی نقل فرمائی وہ بھی کمزور ہے، تو درست بات یہی ہے کہ مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت نہیں۔
[رکوع میں ملنے سے رکعت نہیں ہوتی۔ ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی  اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو جو کچھ امام کے ساتھ پاؤ پڑھ لو اور جو رہ جائے اسے (امام کے سلام پھیرنے کے بعد) پورا کرلو۔  (صحیح بخاری، کتاب الأذان، باب ما ادرکتم فصلوا وما فاتکم فاتموا)
خاتمۃ الحفاظ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جس نے امام کو رکوع میں پایا، اس کی وہ رکعت شمار نہیں ہوگی۔ کیونکہ اس حدیث میں جو رہ گیا ہے، اس کے پورا کرنے کا حکم ہے اور جو آدمی رکوع میں ملا ہے، اس سے قیام و قرات رہ گئے ہیں اور یہی قول ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کا ہے۔ [فتح الباری ]

مدرکِ رکوع مدرک ِرکعت ہے؟

شیخ البانی رحمہ اللہ نے إرواء الغلیل ، ج:۲ ؍ ص:۳۶۰ پر رقم:۴۹۶ میں، منار السبیل کے صفحہ: ۱۱۹سے ابوہریرہ b کی ایک مرفوع حدیث دو لفظوں کے ساتھ نقل فرمائی ہے: «ومن أدرك رکعة فقد أدرك الصلاة» «من أدرك الرکوع فقد أدرك الرکعة» اب ظاہر بات ہے کہ دوسرے لفظ مطلوب ’’ مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت ہے‘‘ پر دلالت [إِرواء الغلیل:۲؍۲۶۶] رہے پہلے لفظ تو أولا وہ اس سیاق میں ثابت ہی ن تو کرتے ہیں، مگر یہ لفظ بے اصل ہیں۔ چنانچہ شیخ البانی ہی لکھتے ہیں: "وأما اللفظ الآخر الذی ذکرہ المؤلف وعزاہ لأبی داود فلا أعلم له أصلا ، لا عند أبی داود ولا عند غیرہ" ہیں۔ کیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن أبی سلیمان المدینی ہیں۔ جس کی وجہ سے حدیث ضعیف ہے۔ چنانچہ شیخ البانی رحمہ اللہ امام حاکم کا فیصلہ (صحیح الإسناد ویحیی بن أبی سلیمان من ثقات المصر یین)نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: (قلت: ووافقه الذهبی والصواب ما أشار إلیہ البیہقی أنه ضعیف لأن یحیی ھذا لم یوثقه غیر ابن حبان والحاکم ، بل قال البخاری: منکر الحدیث وقال أبو حاتم: مضطرب الحدیث ‘‘ لیس بالقوی ، یکتب حدیثه) [إِرواء الغلیل ۲؍۲۶] تو شیخ صاحب نے اعتراف فرمایا ہے کہ یہ حدیث اس سیاق کے ساتھ ضعیف ہے، مگر وہ اس سے قبل اس کو صحیح قرار دے چکے ہیں۔ بدلیل تعدد طرق حالانکہ تعدد طرق سے حدیث کا صحیح یا حسن بن جانا کوئی قاعدہ کلیہ نہیں۔ بلکہ بسااوقات تعدد طرق سے حدیث کے ضعف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اہل علم پر مخفی نہیں تو اس مقام پر تعدد طرق اس حدیث کو حسن نہیں بناتا۔ چہ جائیکہ اس کو صحیح بنائے، کیونکہ جو طرق شیخ صاحب نے اس مقام پر ذکر فرمائے ہیں، ان میں سے کچھ تو موقوف ہیں، اور کچھ مرفوع جو موقوف ہیں وہ تو مقوی مرفوع نہیں، کیونکہ اصول میں وضاحت سے لکھا گیا ہے کہ کسی عالم کا قول یا عمل حدیث کے موافق آجائے تو وہ حدیث کے ثابت ہونے کی دلیل نہیں۔ اس طرح کسی عالم کا قول یا عمل حدیث کے خلاف آجائے تو وہ حدیث کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں۔ لہٰذا آثار موقوفہ سے حدیث کو تقویت پہنچانے والی بات تو کافور ہوگئی۔ رہے مرفوع طرق تو ان میں ایک کے متعلق تو خود شیخ صاحب نے صراحت فرمادی ہے کہ وہ شاہد بننے کے قابل نہیں، باقی دو مرفوع طریق رہ جاتے ہیں۔ جن سے تقویت کی اُمید وابستہ کی جاسکتی ہے۔ ان دو میں سے بھی ایک کے متعلق خود شیخ صاحب لکھتے ہیں: (ولم یذکر أحد منھم ھذہ اللفظة "قبل أن یقیم الإمام صلبه‘ ولعل ھذا من کلام الزهری فأدخله یحیی بن حمید فی الحدیث ولم یبینه) پھر اس یحییٰ کو دار قطنی نے ضعیف بھی کہا ہے تو اس سے بھی تقویت حاصل نہ ہوسکی باقی صرف ایک مرفوع طریق رہ گیا۔ عبدالعزیز بن رفیع والا جس کے متعلق شیخ صاحب فرماتے ہیں: (وھو شاهد قوی فإن رجاله کلھم ثقات) مگر یہ واقع میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکور حدیث کاشاہد ہے ہی نہیں، کیونکہ شاہد  اور مالہ شاہد  کا ایک چیز پر دلالت کرنا ضروری ہے، جبکہ اس مقام پر صورتِ حال اس طرح نہیں، کیونکہ شاہد بزعمہ کے الفاظ ہیں: (إذا جئتم والإمام راکع فارکعوا وإن کان ساجدا فاسجدوا ولا تعتدوا بالسجود إذا لم یکن معہ الرکوع) اس سے صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ کے ساتھ جب رکوع نہ ہو تو سجدہ ناقابل اعتداد ہے، اس شاہد بزعمہ میں یہ بالکل نہیں ہے کہ مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت ہے نہ منطوقا اور نہ ہی مفہوما، تو شیخ صاحب کا عبدالعزیز بن رفیع والے اس طریق کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کا شاہد بنانا درست نہیں، چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ یہ شاہد ہے مگر شیخ صاحب کا اس کو قوی قرار دینا صحیح نہیں۔ کیونکہ قوی ہونے کی انہوں نے جو دلیل پیش فرمائی ہے وہ یہ ہے: (فإن رجاله کلھم ثقات) حالانکہ اس کے تمام رجال ثقات نہیں، کیونکہ عبدالعزیز بن رفیع اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ’’ رجل ‘‘ کا واسطہ ہے۔ جس کا صحابی ہونا ثابت نہیں تو لا محالہ وہ تابعی ہیں۔ کیونکہ تابعی بسااوقات تبع تابعی سے بھی روایت کرلیتا ہے۔ جیسے صحابی بسااوقات تابعی سے روایت کرلیتے ہیں تو بہرحال یہ ’’ رجل ‘‘ تابعی ہو خواہ تبع تابعی مجہول ہے تو شیخ صاحب کا (رجاله کلھم ثقات) کہنا صحیح نہیں ہے۔ چند منٹ کے لیے ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ ’’ رجل ‘‘ تابعی ہو خواہ تبع تابعی ہے ثقہ تو یہ روایت ’’ رجل ‘‘ کے تابعی ہونے کی صورت میں اعم اغلب کے تحت مرسل اور تبع تابعی ہونے کی صورت میں اعم اغلب کے تحت معضل ٹھہری اور مرسل و معضل دونوں ضعیف ہیں۔ لہٰذا شیخ صاحب کا اس کو قوی کہنا درست نہیں۔ اگر یہ کہا جائے اعم اغلب کے تحت عبدالعزیزبن رفیع والی مرسل اور ابوہریرہb والی موصول ضعیف دونوں مل کر حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتی ہیں ، تو جواب میں ہم عرض کریں گے، برسبیل تنزل اگر ہم اس بات کو تسلیم کرلیں تو بھی یہ حسن لغیرہ بنے گی نہ کہ حسن لذاتہ۔ نہ صحیح لغیرہ اور نہ ہی صحیح لذاتہ جبکہ شیخ صاحب اس کو صحیح لکھ رہے ہیں ، تو بہر حال شیخ صاحب کا یہ فیصلہ افراط سے خالی نہیں۔ اگر کہا جائے کہ حسن لغیرہ تو آپ بھی تسلیم کرگئے ہیں گوبر سبیل تنزل ہی سہی اور حسن لغیرہ سے بھی تو احکام ثابت ہوجاتے ہیں تو شیخ صاحب کا بیان کردہ مسئلہ تو درست ٹھہرا تو ہم جو اباًعرض کریں گے نہیں ہرگز نہیں۔ تفصیل ثانیا کے بعد دیکھیں۔
ثانیاً آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ عبدالعزیز بن رفیع والی روایت مدرک رکوع مدرک رکعت ہونے پر دلالت نہیں کرتی اس سے تو صرف اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ و سجود کے قابل اعتداد ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے، رکوع کے بغیر سجود کا کوئی اعتداد و شمار نہیں۔ اب یہ بھی یاد رکھیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث (فاسجدوا ولا تعدوھا شیئا ، ومن أدرك رکعة فقد أدرك الصلاة) کی بھی مدرکِ رکوع کے مدرکِ رکعت ہونے پر دلالت نہیں ہے نہ منطوقاً اور نہ مفہوماً اس کا مدلول تو صرف اور صرف یہ ہے، جس نے رکعت پالی، اس نے نماز پالی۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے رکعت سے کم کو پایا اس نے نماز کو نہیں پایا اور مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت سے کم پانے والا ہے۔ جیسے سجدے کو پانے والا لہٰذا اس کو نماز پانے والا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ دیکھئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں اور ان کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ مدرکِ رکوع مدرکِ رکعت نہیں۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں: (لا یجزئك إلا أن تدرك الإمام قائما) ان لفظو ں کے متعلق شیخ صاحب خود لکھتے ہیں: (فقد ثبت ھذا عن أبی ھریرة لتصریح ابن إسحاق بالحدیث فزالت شبھة تدلیسه) [إرواء الغلیل ۲؍ ۲۶۵]اگر کوئی صاحب فرمائیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اس مرفوع حدیث میں لفظ ’’ رکعۃ ‘‘سے مراد رکوع ہے تو ہم جواباً گزارش کریں گے رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے حقیقت نہیں۔

(والأصل أن یحمل اللفظ علی الحقیقة، ولا قرینة ھھنا تمنع أن یحمل اللفظ علی حقیقیة وکون لفظ ’’ رکعۃ ‘‘ ھٰھنا بعد قولہ ﷺ ’’ فاسجدوا ‘‘ لیس من القرینة فی شیء لضعف دلالة الاقتران فھذا الحدیث یدل بالمنطوق علی أن مدرك السجدہ لیس بمدرک للرکعة وأن مدرک الرکعة مدرک للصلاة ویدل بالمفہوم أن مدرك مادون الرکعة کمدرك الرکوع مثلا لیس بمدرک للصلاة) باقی رہی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث «إن ذلك من السنة» تو وہ ضف کے پیچھے دو رکوع کرکے صف میں شامل ہوکے متعلق ہے۔ مدرکِ رکوع کے مدرکِ رکعت ہونے کے متعلق نہیں۔ جیسا کہ شیخ صاحب کی إرواء الغلیل میں تقریر سے واضح ہے۔ لہٰذا عبداللہ بن زبیر d کی اس حدیث کو مدرک رکعت ہونے کی دلیل بنانا درست نہیں۔

فتاویٰ علمائے حدیث

کتاب الصلاۃجلد 1 

محدث فتویٰ


تبصرے