السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا سوال یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو آیت ’’ و من یضلل اللہ فما لہ من ھاد ‘‘ یا اسی طرح کی دوسری آیات ہیں ان کا کیا مطلب ہے۔؟کیا اللہ گمراہ بھی کرتا ہے۔؟ اگر ہاں تو گمراہ لوگ مجبور نہ کہلائیں گے۔؟براہ مہربانی راہنمائی کر دیں۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!آپ کا یہ سوال تقدیر اور عقیدے سے متعلقہ ہے اور ایسے سوالات سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہئیے۔ اللہ کی تقدیر پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا،انسان کو نیک عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہےاور اسے عقل و شعور کی نعمت سے بہرہ مند کیا گیا ہے ،وہ اپنی خداداد صلاحیتوں سے خیر اور شر میں فرق کر سکتا ہے، اب اس کی تقدیر میں کیا لکھا اسے کچھ علم نہیں ہوتا ،گناہ پر تقدیر کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ کائنات میں ہر اچھا یا برا کام ،ہر خیر اور شر اللہ کی مشیئت اور اذن سے ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک کام اللہ نہ چاہتا ہو اور پھر وہ واقع ہو جائے۔لیکن اللہ تعالیٰ نیکی کو پسند اور برائی کو ناپسند کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ بھی اپنے شرک پر تقدیر کو دلیل بناتے تھے ،لیکن اللہ نے ان کی اس حجت کو قبول نہیں کیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ایک اور مقام پر ان کا یہ قول مذکور ہے:
اس کے باوجود اللہ تعالی نے ان کو مشرک کافر اور خارج عن الاسلام قرار دیا ہے۔ اسلام میں تقدیر کے بارے میں3 قسم کے نظریات پائے جاتے ہیں: جبریہ کا عقیدہواصل ابن عطا جبریہ فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں تقدیر کا پابند ہے اور وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی تقدیر کی وجہ سے وہ سب کرنے پر مجبورِ محض ہے۔ نتیجہ: انسان اپنے کسی بھی عمل کا حساب دینے کا پابند نہیں، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔ قدریہ کا عقیدہجہم بن صفوان قدریہ فرقے کا بانی تھا۔ اس کے عقیدہ کے مطابق انسان اپنے ہر عمل میں آزاد اور خودمختار ہے، اور وہ جو کچھ کرتا ہے سب اپنی مرضی سے کرتا ہے۔ نتیجہ: انسان اپنے ہر عمل کا حساب دینے کا پابند ہے، خواہ وہ اس نے کسی بھی وجہ سے کیا ہو۔ معتدل عقیدہجبریہ اور قدریہ کے برخلاف اشاعرہ اور ماتریدیہ کا مسلک متوازن ہے۔ ان کے مطابق انسان اپنے بعض اعمال میں مجبور ہے اور بعض میں مختار ہے۔ نتیجہ: انسان اپنے انہی اعمال کا حساب دینے کا پابند ہوگا جو وہ اپنی رضا و رغبت سے کرتا ہے۔ مجبوری میں کئے جانے والے اعمال کی بابت اس سے باز پرس نہیں ہو گی۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |