سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) دھوپ میں رکھے ہوئے پانی کا حکم:

  • 26210
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 536

سوال

(34) دھوپ میں رکھے ہوئے پانی کا حکم:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دھوپ میں رکھا ہوا پانی وضو اور غسل میں استعمال کرنا چاہیے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وضو اور غسل میں اس کا استعمال بلا کراہیت جائز ہے، چنانچہ میزان شعرانی میں ہے:

"ومن ذلک قول الأئمۃ الثلاثۃ بعدم کراھةاستعمال الماء المشمس في الطھارۃ مع الأصح من مذھب الشافعي من کراھیة استعمالہ، فالأول مخفف، والثاني مشدد، فرجع إلی مرتبتي المیزان، و وجہ الأول عدم صحة دلیل فیہ، فلو أنہ کان یضر الأمة لبینہ لھم رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم ، ولو في حدیث واحد، أما والأثر في ذلک عن عمر رضی اللہ عنہ  فضعیف جدا فبقي الأمر فیہ علیٰ الإباحة" [1]

[اس سلسلے میں ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ طہارت کے لیے ماے مشمس(دھوپ میں گرم ہونے والا پانی) کا استعمال مکروہ نہیں ہے، جب کہ صحیح قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ  ایسے پانی کے استعمال کی کراہیت کے قائل ہیں۔ پہلے قول میں آسانی ہے، جب کہ دوسرے قول میں شدت پائی جاتی ہے۔ پہلے قول کی بنیاد یہ ہے کہ اس پانی کے استعمال میں کراہت کی کوئی صحیح دلیل ثابت نہیں ہے تو یہ دونوں ترازو کے دونوں پلڑوں میں رکھے جائیں گے۔ اگر ایسا پانی نقصان دہ ہوتا تو رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  اس کی وضاحت فرما دیتے، چاہے کسی ایک حدیث ہی میں سہی۔ اور اس کے متعلق میں جو عمر رضی اللہ عنہ  سے اثر مروی ہے، وہ انتہائی ضعیف ہے، لہٰذا ثابت ہوا کہ ایسا پانی استعمال کرنا مباح اور جائز ہے]

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  سے مروی ہے’’بحکمِ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے پانی کو تابِ آفتاب میں گرم ہونے کو رکھا، واسطے غسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے۔‘‘

اس بارے میں کہ دھوپ میں رکھا ہوا پانی وضو اور غسل میں استعمال کرنا چاہیے یا نہیں؟ کوئی صحیح حدیث معلوم نہیں ہوتی، ہاں اگر طبی طور پر اس پانی کا استعمال مضر ثابت ہو تو اس کا استعمال ناجائز ہوگا، ورنہ جائز۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:96

محدث فتویٰ


[1]                المیزان للشعراني (۱/ ۳۳۱)

تبصرے