سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) حدیثِ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان:

  • 26209
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 775

سوال

(33) حدیثِ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان:

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

زاد المعاد میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ  نے مطلقہ ثلاثہ کے سکنی اور نان و نفقہ کے متعلق جو بحث کی ہے، اس میں مطعن ثانی کے جواب میں جو یہ عبارت ہے:"وقد أنکر الإمام أحمد ھذا عن قول عمر، وجعل یتبسم، ویقول: أین في کتاب   الله إیجاب السکنیٰ والنفقۃ للمطلقۃ ثلاثا۔۔۔ الخ"[1]اس عبارت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے استدلال کا انکار مذکور ہے یا آپ سے ثبوتِ روایت کا انکار ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عبارت میں محلِ انکار حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا استدلال ہے۔ یہ نہیں کہ روایت، جس کے متعلق مصنف علامہ بحث کر رہے ہیں، اس کا ثبوت حضرت عمر سے نہیں۔ اس کی وجوہات حسبِ ذیل ہیں:

۱۔ اس عبارت کے آگے یہ عبارت ہے:"وأنکرتہ قبلہ الفقیھۃ الفاضلۃ فاطمۃ"۔ ظاہر ہے کہ "ہذا"  کا مشار الیہ اور "أنکرتہ"میں ضمیر مفعول کا مرجع ایک ہی ہے اور بادنیٰ تامل معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا  حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کی روایت کا انکار نہیں کر سکتی،  کیونکہ  وہ صحابیہ ہے اور صا حبہ قصہ ہے اور اسی کے ساتھ اس امر میں نزاع ہوا، بلکہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے استدلال کا انکار کرتی ہیں۔ پس ’’ہذا‘‘ کا مشار الیہ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کا استدلال ہے۔

۲۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ  نے مطاعن حدیثِ فاطمہ رضی اللہ عنہ  کی چار قسمیں کر کے ہر ایک کے جواب کے متعلق علیحدہ فصل قائم کی ہے۔ یہ عبارت زیرِ بحث دوسری قسم یعنی مخالفتِ قرآن میں ذکر کی ہے اور چوتھی قسم میں روایتِ مرفوع اور زیادت ’’سنۃ نبینا‘‘ کے متعلق ہے۔ پس اس قسم کے لحاظ سے عبارت زیرِ بحث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے استدلالِ قرآنی کا ذکر ہے نہ کہ زیادت ’’سنۃ نبینا‘‘ کا بیان، بلکہ اس کے لیے علیحدہ چوتھی قسم میں بحث کی ہے۔

ابراہیم سیالکوٹی

الجواب صحیح۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ ایسی صاف عبارت کے مطلب میں بھی اختلاف ہوتا ہے، خصوصاً ایسے علما کا جنھوں نے تعلیم و تعلم و دیگر علمی امور میں اپنی عمریں صَرف کر دیں۔ محمد عبد  الله (غازی پوری)

أصاب من جاب۔           عبدالمنان وزیر آبادی                                 عبدالجبار عمر پوری، کان  اللّٰه ، مقیم دہلی کشن گنج

صح الجواب۔ شبلی نعمانی لکھنؤ

خاکسار کے نزدیک جواب صحیح معلوم ہوتا ہے۔ و  الله أعلم بالصواب۔ عبدالاحد خانپوری، عفی عنہ۔

ھذا ھو الصواب۔ شیر علی (مدرس اعلیٰ ندوہ)

یظھر جلیا أن إنکار أحمد إنما یتعلق بالمخالفة بین الکتاب والسنة، کما زعمھا أمیر المؤمنین، وقد أنکرت تلک المخالفةقبل أحمدَ فاطمة أما استدلال عمر فلم یسبق لہ في الفصل ذکر حتی یشار إلیہ بھذا، نعم إنکار المخالفة یراد بہ إنکار استدلال عمر، و ھذا ما قلنا إنما ھو بحیث اللفظ وما یدل علیہ سیاق العبارۃ، أما إنکار الروایة فلا دلالة علیہ ولیس إلیہ سبیل۔ السید سلیمان (المعلم في دار العلوم لکھنؤ)

ھذا ھو الشبیہ بالصواب۔ سید علي الزینبي (المعلم في دار العلوم لکھنؤ)

ھذا الجواب حق، و  الله أعلم بالصواب۔ أبو العماد محمد شبلي (مدرس في دار العلوم ندوۃ العلماء) محمد أبو القاسم بنارسي۔[2]

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:94

محدث فتویٰ


[1]  زاد المعاد (۵/ ۴۷۷) 

[2]  ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘ امرتسر (۲۷؍ ذوالحجہ ۱۳۲۸ھ)

تبصرے