سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) واجب اور فرض میں کیا فرق ہے؟

  • 26204
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-06
  • مشاہدات : 687

سوال

(28) واجب اور فرض میں کیا فرق ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

واجب اور فرض میں کیا فرق ہے؟ یعنی جس بات کو   الله تعالیٰ نے حکم کیا ہے وہ بات تو فرض ہے اور واجب کیا چیز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فرض اور واجب فقہاءرحمہم اللہ کے اصطلاحی الفاظ ہیں۔ بعض نے اپنی اصطلاح میں فرض و واجب میں فرق کیا ہے اور بعض نے فرق نہیں کیا ہے۔ جن لوگوں نے فرق کیا ہے، وہ یہ کہتے ہیں کہ جو حکم شرع نے کیا اور اس کے منعِ ترک پر قطعی دلیل قائم ہے، یعنی ایسی دلیل جس میں کسی طرح کا شبہہ نہیں ہے، تو وہ فرض ہے اور اگر اس پر دلیل ظنی قائم ہے، یعنی شبہہ ہے تو واجب ہے، جیسا کہ توضیح تلویح (ص: ۳۳۵، ۳۳۶ چھاپہ نولکشور ۱۲۸۸؁)   میں ہے:

(عبارتِ توضیح)"فإن کان الفعل أولی من الترک مع منعہ أي منع الترک بدلیل قطعي فلا فعل فرض، و بظني واجب۔ (عبارتِ تلویح) فالفرض لازم علما وعملا أي یلزم اعتقاد حقیتہ، و العمل بموجبہ لثبوتہ بدلیل قطعي حتی لو أنکرہ قولاً واعتقاداً کان کافراً، والواجب لا یلزم اعتقاد حقیتہ لثبوتہ بدلیل ظني"

[(توضیح کی عبارت) پس اگر وہ فعل منع کے ساتھ ساتھ ترک سے زیادہ اولی اور بہتر ہو، یعنی اس کے منعِ ترک پر قطعی دلیل قائم ہو تو وہ فرض ہے اور اگر ظنی دلیل قائم ہو تو وہ واجب ہے۔ (عبارتِ تلویح) پس فرض علم و عمل کے اعتبار سے لازم ہے، یعنی اس کی حقیقت کا اعتقاد رکھنا لازم ہے۔ رہا اس کے موجب کے ساتھ عمل تو وہ اس کے قطعی دلیل کے ساتھ ثابت ہونے کی بنا پر ہے، حتی کہ اگر وہ قولی اور اعتقادی طور پر اس کا انکار کرے گا تو وہ کافر ہوگا، رہا واجب تو اس کے حق ہونے کا اعتقاد اس کے ظنی دلیل کے ساتھ ثابت ہونے کی وجہ سے لازم نہیں ہے]

منار متن نور الانوار (ص: ۱۶۴ چھاپہ مصطفائی) میں ہے: "فالأول فریضة وھي ما لا یحتمل زیادة ولا نقصانا، ثبت بدلیل لا شبھة فیہ، کالإیمان والأرکان الأربعةوحکمہ اللزوم" [پس پہلا فرض ہے اور وہ وہ ہے جو زیادتی اور نقصان کا احتمال نہ رکھتا ہو، ایسی دلیل کے ساتھ ثابت ہو جس میں کوئی شبہہ نہ ہو، جیسے ایمان اور ارکانِ اربعہ، اس کا حکم لزوم ہے]

جن لوگوں نے فرض اور واجب میں فرق نہیں کیا ہے، اُن میں سے امام شافعی رحمہ اللہ  بھی ہیں، جیسا کہ توضیح (ص: ۳۳۹ چھاپہ مذکورہ) میں ہے:"والشافعي رحمه اللّٰه  لم یفرق بین الفرض والواجب" [امام شافعی رحمہ اللہ  نے فرض و واجب میں فرق نہیں کیا ہے] تلویح (ص: 11 و ۲۱۴ چھاپہ مذکورہ) میں ہے: "فالمراد بالواجب ما یشتمل الفرض أیضا، لأن استعمالہ بھذا المعنی شائع عندھم، کقولھم: الزکاة واجبة والحج واجب" [پس واجب سے مراد یہ ہے جو فرض پر بھی مشتمل ہو،  کیونکہ  ان کے نزدیک اس کا استعمال اس معنی میں شائع اور عام ہے، جیسے ان کا کہنا: زکات واجب ہے اور حج واجب ہے]

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:91

محدث فتویٰ

تبصرے