السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث: (( ستفترق أمتي علی ثلاث وسبعین فرقة )) درجاتِ احادیث میں کونسا درجہ رکھتی ہے؟ یہ حدیث موضوع ہے؟ (( مَا أنا علیہ وأصحابي )) اسی کا ٹکڑا ہے یا کہیں دوسری جگہ میں آیا ہے؟ مولوی شبلی نے ’’سیرۃ النعمان‘‘ میں اس کو موضوع لکھا ہے۔ [1] کیا یہ بالکل صحیح ہے؟ بینوا توجروا۔
[1] سیرۃ النعمان از مولانا شبلی نعمانی (ص: ۱۳۲) مفید عام، آگرہ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث: (( ستفترق أمتي علٰی ثلاث وسبعین فرقة )) کو ترمذی نے اپنی سنن کی کتاب الایمان میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ و عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مع سند روایت کیا ہے۔[1]
اول حدیث کی نسبت یہ عبارت تحریر فرمائی ہے: ’’حدیث أبي ھریرةحسن صحیح‘‘ اور ثانی کی نسبت یہ لکھا ہے: ’’ھذا حدیث حسن غریب‘‘
ثانی کی سند میں ایک راوی عبدالرحمن بن زیاد بن انعم افریقی ہیں، جو کسی قدر ضعیف ہیں، لیکن نہ اس وجہ سے کہ فاقد صلاح و تقویٰ کے تھے، بلکہ ان کے ضعف کی اور وجہ ہے، جس سے ان کی حدیث درجہ حسن سے نازل نہیں ہوسکتی،² لہٰذا ترمذی نے اس حدیث کی تحسین کی اور فی الواقع ترمذی کی یہ تحسین قابلِ تحسین ہے۔ اول کی سند ہر طرح درست ہے۔ کہیں اُس میں کوئی کھونٹ نہیں ہے،[2] لہٰذا ترمذی نے اس کی تصحیح کی اور اس تصحیح میں بھی ترمذی حق بجانب ہیں۔ ترمذی رحمہ اللہ نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ اس مضمون کی حدیث اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے، چنانچہ فرمایا: "وفي الباب عن سعد وعوف بن مالک" مجھ کو ائمہ حدیث میں سے باوجود تفحص اب تک کوئی ایسا نہیں ملا، جس نے اس حدیث کی تضعیف کی ہو، فضلاً عن نسبۃ الوضع إلیہ۔ [چہ جائے کہ اس کی طرف وضع کی نسبت کی ہو]
(( مَا أنا علیہ وأصحابي )) [جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں] ثانی حدیث کا ٹکڑا ہے۔[3] ہاں ایک حدیث اور ہے، جس کو عقیلی اور دارقطنی نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ یہ ہے:
(( تفترق أمتي علی سبعین أو إحدی وسبعین فرقة۔۔ الحدیث )) [1] [میری امت ستر یا اکہتر فرقوں میں بٹ جائے گی] یا (( تفترق أمتي علی بضع وسبعین فرقة۔۔۔ الحدیث)) [2] [میری امت ستر سے کچھ اوپر فرقوں میں منقسم ہوجائے گی]
اس حدیث کو ضرور ائمہ حدیث نے ضعیف یا بے اصل یا موضوع قرار دیا ہے۔ اس کی زیادہ تفصیل"اللٓالیٔ المصنوعۃ" (ص: ۱۸۸) و دیگر کتبِ موضوعات میں ملے گی۔ شاید مولف’’سیرۃ النعمان‘‘ کو ایک حدیث کا دوسری حدیث سے اشتباہ ہوگیا ہو، جو ایک صحیح حدیث کو موضوع کہہ دینے کا سبب ہوگیا اور یہ کچھ عجیب بات نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
[1] الضعفاء للعقیلي (۴/ ۲۰۱) لسان المیزان (۶/ ۵۶)
[2] الضعفاء للعقیلي (۴/ ۲۰۱) تفصیل کے لیے دیکھیں: السلسلة الضعیفة، رقم الحدیث (۱۰۳۵)
[3] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۰، ۲۶۴۱)
[2] حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ضعیف في حفظہ، وکان رجلا صالحاً" (تقریب التھذیب، ص: ۳۴۰)
[3] سنن الترمذي، رقم الحدیث (۲۶۴۱)