سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(16) مسئلہ امامت و بیعت

  • 26187
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 579

سوال

(16) مسئلہ امامت و بیعت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماے دین و مفتیانِ شرع متین مسائل ذیل میں:

1۔متعدد مواضع کے لوگوں نے ایک عالم متدین کو پسند کر کے اسلامی امور کے بندوبست کے لیے اس کے ہاتھ پر بطوع خاطر بیعت کی اور چند مدت تک تابع داری کرتے آئے۔ اب بعض لوگوں کے اغوا سے بجرم ایں کہ متبوع حقہ نوش وغیرہ کے مکان میں ضیافت کھاتا ہے، لہٰذا بیعت سابقہ توڑ کر دوسرے عالم کے ہاتھ پر کریں تو یہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟

2۔جو لوگ جدوجہد سے لوگوں کو بیعت سابقہ توڑنے کی فتنہ میں ڈالے اور اغوا سے جماعت مستقرہ میں یہ فساد ڈال کر آپس کی اصلاح توڑنے کو بر انگیختہ کریں تو یہ لوگ کیسے ہیں اور شرعاً یہ کارروائی جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب ایک یا کئی بستی والے مسلمان، رعایا غیر حکامِ اسلام، کسی مسلمان کو علماے متدینین سے اپنے لیے والی بنا دیں، تاکہ ان کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے اور ان میں جمعہ، جماعات و اعیاد وغیرہ احکامِ شرعیہ قائم کرے کہ جن کی حکامِ وقت مزاحمت نہیں کرتے اور بیعت کریں اس سے اس امر پر کہ اس میں نافرمانی نہ کریں گے اور اقرار کر لیں اپنی جانوں پر تو اس طرح کی تولیت بلاشک جائز ہے، بلکہ واجب ہے ہر ان عدد پر کہ تین یا زائد کو پہنچ جائیں کہ ایک کو اپنے لیے ان میں سے والی بنا دیں، اس وجہ سے کہ تفریق شرعاً منہی عنہ ہے۔   الله تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَلَا تَفَرَّقُوْا﴾ (یعنی فرقہ فرقہ مت ہو جاؤ) لہٰذا اجتماع ضروری ہے اور بلا ناظم و والی کے یہ انتظام و اجتماع حاصل نہیں ہو سکتا۔

بدیں وجہ انتظامِ ناظم و تولیتِ والی ضروری ہے۔ تحقیق رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جب کہ تین ہوں سفر میں تو ان کو چاہیے کہ ایک کو ان میں سے امیر بنائیں۔ جب یہ امیر بنانا تین مسافروں کے لیے واجب ہوا تو پھر وجوب اس کا اِن سے زائد پر بہت ہی لائق و اولیٰ ہوا۔ پھر جب وہ اس کو والی اپنے نفسوں پر قرار دے چکے ہیں، اب ان کے واسطے جائز نہیں کہ اس کو معزول کر دیں یا اس کی بیعت اتار دیں اور اس کی اطاعت سے نکل جائیں، اگرچہ اس کو کسی شَے کا معصیتِ خدا سے مرتکب دیکھیں، جب تک وہ ان میں نماز قائم کرتا رہے۔

ہاں البتہ واجب ہے ان پر کہ برا جانے اس امر کو جو وہ معصیتِ خدا کرتا ہے، بدلیل فرمانِ رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کہ بہتر امام تمھارے وہ ہیں، جو تمھیں دوست رکھیں اور تم ان کو دوست رکھو اور تم دعا کرو ان کے حق میں اور وہ دعا کریں تمھارے حق میں اور بدتر امام تمھارے وہ ہیں، جو تم کو مبغوض جانیں اور تم ان کو جانو، وہ تم پر لعنت برسائیں اور تم ان پر لعنت برساؤ۔ ہم نے کہا: اے رسولِ خدا! کیا ہم ایسے موقع پر ان کی بیعت و عہد ان کی طرف ڈال نہ دیں؟ فرمایا: نہیں! جب تک وہ تم میں نماز قائم رکھیں۔ خبردار! جس شخص پر کوئی والی ہو اور اس کو معصیتِ خدا کا مرتکب دیکھے تو اس کو چاہیے کہ اُسی معصیتِ خدا ہی کو برا جانے اور اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔

اس سے واضح ہوگیا کہ وہ امور جو سوال میں مذکور ہیں مثل تنباک وغیرہ پینے والے کے ساتھ والی کا ملنا تو ان میں ایسا کوئی امر نہیں ہے کہ جس کے سبب سے اس کا معزول کرنا یا اس کی بیعت توڑ دینا یا اس کی اطاعت سے خارج ہونا جائز ہو، چہ جائے کہ ان پر اس کو واجب قرار دیا جائے،  کیونکہ  سوال میں مذکورہ بالا امور میں ترک اقامتِ صلاۃ نہیں ہے جو اس کے جواز کی شرط ہے۔ و  الله تعالیٰ أعلم بالصواب۔

جواب سوال ثانی:

بیعت ثانیہ کا حکم یہ ہے کہ وہ ہرگز جائز نہیں، چوںکہ اس سے تفریق اور بے وفائی لازم آتی ہے، لہٰذا یہ دونوں جائز نہیں، جیسا کہ گزر چکا اور عن قریب آتا ہے۔ نیز حکم اس امر میں کوشش کرنے والوں کا یہ ہے کہ وہ ناجائز امر مثل تفریق و بے وفائی میں سعی کرنے والے ہیں، لہٰذا وہ عاصی ٹھہرے، اسی طرح سے حکم مولوی صاحب مذکور کا (جو سوال میں واقع ہوئے ہیں) اور حکم اس جماعت کا؛ جو طاعتِ والی اول سے خارج ہو بیٹھی ہے، بے وفا ہیں اور بے وفائی نفاق کی خصلتوں میں سے ایک خصلت ہے اور کبیرہ گناہ ہے۔

رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’چار چیزیں ہیں، جن میں وہ ہوں وہ خالص منافق ہوتا ہے اور جس میں ان میں سے ایک خصلت ہو، اس میں ایک خصلت نفاق کی ہے، حتی کہ وہ اس کو ترک کر دے: 1۔امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ 2۔جب باتیں کرے تو جھوٹی کرے۔ 3۔جب عہد و پیمان کرے تو بے وفائی کرے۔ 4 ۔جب جھگڑا کرے تو فحش بکے۔‘‘ نیز رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ہر بے وفا کے لیے قیامت کے دن جھنڈا ہوگا کہ وہ اس کی وجہ سے پہچانا جائے گا۔‘‘

امام مسلم نے بروایت ابو سعید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہر بے وفا کے لیے قیامت کے دن اس کے چوتڑوں کے پاس جھنڈا ہوگا۔ مشکوة

یہاں سب پر جو واجب ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف جھکیں اور تمام ان چیزوں سے کہ جن کے وہ مرتکب ہوئے ہیں، مثل بے وفائی و سعی فی الفساد وغیرہ کے توبہ کر لیں۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: ’’کہو اے بندو میرے جنھوں نے زیادتی کی اوپر جانوں اپنی کے! مت نا امید ہو رحمت   الله کی سے، تحقیق   الله بخشتا ہے گناہ سارے، تحقیق وہی بخشنے والا مہربان ہے اور رجوع کرو طرف پروردگار اپنے کے اور مطیع رہو واسطے اس کے پہلے، اس کے کہ آئے تم کو عذاب، پھر نہ مدد کیے جاؤ گے۔‘‘


 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:68

محدث فتویٰ

تبصرے