سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(14)فضیلتِ شیخین

  • 26184
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 663

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علماے دین اس میں کہ یہ جو کتبِ عقائد مثل عقیدہ صابونیہ و عقیدہ واسطیہ و انتقاد رجیح وغیرہا میں مندرج ہے کہ افضل اس اُمت کے بعد رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ، یہ امر شرعی ہے یا غیر شرعی ہے؟ برتقدیرِ ثانی یہ کہنا جائز ہے یا نہیں کہ حضرت علی افضل ہیں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما  سے اور عمر رضی اللہ عنہ  ابوبکر رضی اللہ عنہ  سے؟

سوال:  2۔ جس شخص کا یہ مقولہ ہو کہ اگر کوئی علی رضی اللہ عنہ  کو ابوبکر رضی اللہ عنہ  سے افضل کہے تو اس کو بھی سچا دین دار جانتا ہوں اور اس ترتیب کو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ افضل ہیں عمر رضی اللہ عنہ  سے اور عمر رضی اللہ عنہ  عثمان رضی اللہ عنہ  سے اور عثمان رضی اللہ عنہ  علی رضی اللہ عنہ  سے غیر شرعی جانتا ہوں، ایسا شخص کیسا ہے؟ مخالف عقیدہ سلف کے ہے یا موافق اور سلف اہلِ سنت و علماے محدثین کا اس میں کیا عقیدہ تھا؟

سوال:  3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے کیوں لڑیں: آیا بوجہ خلافت کے یا بجہتِ طلب قاتلانِ عثمان رضی اللہ عنہ کے؟ بر تقدیر ثانی، اہلِ جمل کا قتال حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے بحکم یا رضا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کے تھا یا درمیان میں مفسدوں نے فساد ڈال دیا تھا؟ بر تقدیرِ ثانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  پر اطلاق باغیہ کا کرنا اس وقت میں صحیح تھا یا صحیح نہیں تھا اور سلف کا اس میں کیا عقیدہ ہے؟



                                 الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

 

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 یہ جو کتبِ عقاید میں مندرج ہے کہ افضل اس امت کے بعد رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے ابوبکر رضی اللہ عنہ  ہیں، پھر عمر رضی اللہ عنہ، پھر عثمان رضی اللہ عنہ ، پھر علی رضی اللہ عنہ  یہ امر شرعی ہے اور دلیل اس پر حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ہے:

"قال کنا نخیر بین الناس في زمان رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  فنخیر أبا بکر رضی اللہ عنہ  ثم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ  ثم عثمان بن عفان"[1] رواہ البخاري

[ہم رسول   الله صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں صحابہ میں بعض کو بعض پر فضیلت دیتے تھے، ہم کہتے تھے ابوبکر سب سے افضل ہیں، ان کے بعد عمر، پھر عثمان رضی اللہ عنہم ]

اور یہ حدیث حکماً مرفوع ہے، جیسا کہ علمِ اصول سے معمولی تعلق رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے۔ طبرانی[2] کی روایت میں ہے: "فیسمع النبي صلی اللہ علیہ وسلم  ولا ینکرہ"[3]یہاں سے صراحتاً تقریرِ نبوی سمجھی جاتی ہے۔

 قائل مقولہ مذکورہ کا عقیدہ جمہور سلف و علماے محدثین کے مخالف ہے۔

جواب:    جنگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے بجہتِ طلب قصاص عثمان رضی اللہ عنہ  کے تھی، مفسدوں نے درمیان میں فساد ڈال دیا تھا، اس لیے باغیہ کا اطلاق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  پر صحیح نہیں ہے، سلف کا اس بارے میں یہی عقیدہ ہے۔ والتفصیل إلی کتب العقائد۔ و  الله أعلم۔کتبہ: محمد بشیر ۱۲۹۴ عفی عنہ۔ الجواب صحیح: کتبہ محمد بن عبد العزیز القاضی فی بھوپال۔ شیخ محمد عفی عنہ۔

جواب: فی الواقع افضل اس امت کے بعد حضرت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور یہ امر شرعی ہے اور اس پر ایک دلیل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  کی یہ حدیث ہے:

"إن النبيّ  صعد أحدا و أبوبکر و عمر، و عثمان رضی اللہ عنہم  فرجف بھم، فقال: اثبت أحد! فإنما علیک نبي وصدیق وشھیدان"[4] (رواہ البخاري)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اور ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم  اُحد پہاڑ پر چڑھے ہوئے تھے تو پہاڑ کانپنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: اے اُحد! ٹھہر جا، تیرے اوپر نبی اور صدیق اور دو شہید ہیں۔‘‘

وجہ دلالت اس حدیث کی اس امر پر یہ ہے کہ افضل ناس مطلقاً نبی ہوتے ہیں، پھر صدیق، پھر شہید، جیسا کہ آیتِ کریمہ ہے: ﴿فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ﴾ [النساء: ۶۹]

’’یہ وہ لوگ ہیں جن پر الله تعالیٰ نے انعام کیا نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحین میں سے۔‘‘ اس پر دال ہے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ  صدیق ہیں اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما  شہید۔

جواب:2۔ایسا شخص مخالف ہے عقیدہ سلف صالحین و ائمہ محدثین و مجتہدین کے۔

جواب:     3۔جنگ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے بوجہ طلب قصاص قاتلانِ حضرت عثمان سے تھی، مفسدوں نے بیچ میں فساد ڈال دیا تھا۔ اس لیے اطلاق باغیہ کا ان پر صحیح نہیں ہے، سلف صالحین کا اس میں یہی عقیدہ ہے۔

نمقہ محمد عبد  الله غازی پوری (مدرس چشمہ رحمت) الجواب صحیح وخلافہ قبیح۔ العاجز سید محمد نذیر حسین عفي عنہ بقلم خود۔

یہ جواب صحیح ہے۔ شریف حسین۔                                     یہ جواب صحیح ہے۔ غلام اکبر خاں

المجیب مصیب۔ تلطف حسین عفی عنہ                                    اَصاب من اَجاب۔ محمد عبدالرحمن۔

الجواب صحیح۔ ابو نصر عبد  الله فضل حسین مظفر پوری۔           عبد الرحیم۔

ﷲ در المجیب فإنہ فیما قال مصیب۔ ابو محمد ابراہیم

نعم الجواب وھو الصواب۔ محمد ادریس                                    الجواب صحیح۔ محمداسماعیل۔

اچھا جواب لکھا ہے۔ عبد العزیز مظفر پوری۔ اصاب من اجاب و  الله اعلم بالصواب۔ نظیر حسین آروی۔

 


[1]              صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۷۲)

[2]              صحیح البخاري، رقم الحدیث (۳۴۵۵)

[3]              "مجمع الزوائد‘‘ (۹/ ۴۹) میں لکھا ہے:

"رواہ الطبراني في الکبیر والأوسط بنحوہ باختصار إلا أنہ قال:

"أبو بکر و عمر و عثمان رضى الله عنهم ثم استقر الناس فبلغ رسول اﷲصلى الله عليه وسلم  فلا ینکرہ علینا"

وأبو یعلی بنحوہ الطبراني في الکبیر، ورجالہ وثقوا، وفیہم خلاف" انتھی۔

’’طبرانی نے اوسط اور کبیر میں اس حدیث کو بیان کیا ہے:

’’ کہ صحابہ کرام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں افضلیت میں حضرت ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا نام لیا کرتے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس بات کا علم تھا، لیکن آپ نے منع نہیں کیا۔‘‘

ابو یعلی نے بھی اسے بیان کیا ہے اور اس کے رجال کی توثیق کی گئی ہے اور ان میں اختلاف بھی ہے۔‘‘ (ابو سعید محمد شرف الدین ۔عفي عنہ)

[4]              المعجم الکبیر (۱۲/ ۲۸۵)

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

مجموعہ فتاویٰ عبداللہ غازی پوری

کتاب الصلاۃ ،صفحہ:50

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ