السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جانور زندہ بنام بڑے پیر صاحب کے نامزد کر کے رکھنا، گیارھویں تاریخ کو نہلا کے ذبح کرنا اور کھانا پکا کے زمین لیپ پوت کے تھال بھر کے رکھنا اور بڑی تعظیم سے سامنے کھڑے ہو کے اس کھانے پر فاتحہ پڑھنا اور اس وقت پیر صاحب کو وہاں حاضر و ناظر فریاد رس جان کے مرادیں مانگنا درست ہے یا نہیں؟
2۔وقت مصیبت کے بڑے پیر صاحب کو پکارنا کہ یا بڑے پیر میری مراد بر لائیے اور وقت پکارنے کے پیر صاحب کو سننے والا جاننا درست ہے یا نہیں؟
3۔قبروں پر عرس کرنا اور چراغ بہت جلانا، روشنی ہر طرح کی کرنا اور تیل بہت خرچ کرنا اور کھانا مٹھائی چڑھانا اور راگ گانا اور قوال خوانی کرانا اور اہلِ قبور کو سننے والا جاننا درست ہے یا نہیں؟
4۔مٹھیا کا چاول واسطے خرچ متعلق مسجد کے نکالا جاتا تھا، اس کو جو آدمی منع کر کے اُس چاول سے نیاز گیارھویں کرنے کو کہے، وہ آدمی کیسا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جانور زندہ بنام بڑے پیر صاحب کے نامزد کر کے رکھ کر گیارھویں تاریخ کو نہلا کے ذبح کر کے اور کھانا پکا کے زمین لیپ پوت کے تھال بھر کے رکھ کر بڑی تعظیم سے کھڑے ہو کے اس کھانے پر فاتحہ پڑھنا اور اس وقت پیر صاحب کو وہاں حاضر و ناظر و فریاد رس جان کے مرادیں مانگنا اور وقت مصیبت کے بڑے پیر صاحب کو پکارنا کہ یا بڑے پیر میری مراد برلائیے اور وقت پکارنے کے پیر صاحب کو سننے والا جاننا اور قبروں پر عرس کرنا، چراغ بہت جلانا، روشنی ہر طرح کی کرنا اور کھانا مٹھائی چڑھانا اور اہلِ قبور کو سننے والا جاننا؛ یہ سب امور نادرست ہیں۔ کسی آیت یا مستند حدیث سے یا عملِ صحابہ سے ثابت نہیں۔ اس لیے یہ بدعت و ضلالت ہیں۔ جو شخص ان امور کو جائز بتائے، محض جاہل اور قرآن و حدیث سے بے خبر ہے۔ اس قسم کے امور نہ خود حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کیے ہیں نہ کسی کو ان کی تعلیم فرمائی ہے۔
جو شخص کہے کہ یہ امور درست ہیں، اس کو جھوٹا جاننا چاہیے۔ وہ محض پیٹ کے واسطے بندگانِ خدا کو بہکاتا ہے اور یہ جان لینا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے آیتِ کریمہ:﴿وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ﴾ [سورۃ الأحزاب﴿٤٠﴾]
سے پیغمبری حضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کر دی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی پیغمبر ہوا ہے نہ ہوگا۔ جس قدر احکامِ خداوندی کہ بندوں کے حق میں مفید تھے، وہ سب الله پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتار کر دین کو پورا کر چکا اور جب دین پورا ہوچکا، تب الله تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس بلا لیا۔ اب جو کوئی احکام مذکورہ کے سوائے کوئی دوسرا حکم جاری کرے، وہ حکم ہرگز پابندی کے قابل نہیں ہے اور کسی مسلمان کو اس حکم کا ماننا جائز نہیں ہے۔ مسلمان کو اس حکم کے ماننے سے بچنا چاہیے، ورنہ قیامت میں ضرور پکڑ ہوگی اور الله تعالیٰ پوچھے گا (ہم تو تمہارا دین پورا کر چکے تھے اور ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ [المائدۃ: ﴿٣﴾ ] نازل کر کے اس کی اطلاع بھی دے دی تھی، پھر تم نے دین کو ناقض کیوں سمجھا اور ہماری بات کو باور کیوں نہ کیا، سچ کیوں نہ سمجھا؟) اس وقت اِس کا کچھ جواب بن نہ آئے گا۔
گیارھویں کی نیاز کرنے کا بھی کوئی ثبوت قرآن مجید یا حدیث شریف سے نہیں ہے، اور مسجد کا بنوانا یا مسجد کی مرمت کرنا، اس کا بہت ثواب ہے، پس جو شخص اس مال کو، جو مسجد کے لیے نکالا گیا ہے، گیارھویں کی نیاز میں خرچ کرنے کو کہے، محض نادان اور بے خبر اور منّاعِ خیر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب