سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(1) غیر اللہ کے لیے سجدہ بالاتفاق حرام ہے

  • 26143
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1551

سوال

(1) غیر اللہ کے لیے سجدہ بالاتفاق حرام ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

غیرﷲ کے لیے سجدہ بالاتفاق حرام ہے، جبکہ بعض حضرات سجدۂ تعظیمی اورسجدۂ عبادت میں فرق کرتے ہیں۔ پہلے کو حرام اوردوسرے کوشرک قرار دیتے ہیں ،کیایہ تفریق صحیح ہے ،نیز اس میں فاعل کی نیت اور عقیدے کا کوئی دخل ہے یانہیں، اگر شرک ہے توکس درجے کا؟کیا تعظیمی سجدے کی طرح تعظیمی رکوع ،تعظیمی قیام اورتعظیمی طواف بھی شرک ہے؟ کیایہ مظاہرِ عبودیت زندہ اور مردہ کے لیے یکساں حکم رکھتے ہیں یاان میں کوئی فرق ہے؟ تکفیر وخارجیت کے فتنو ں کو مد نظر رکھتے ہوئے جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اﷲ تعالیٰ نے جن وانس کواپنی عباد ت کے لیے پیدا کیاہے۔     [۵۱/الذاریات :۵۶]

اﷲ تعالیٰ کی عبادت سے مراد یہ ہے کہ اس کے حضورانتہائی عاجزی، لاچاری، بے بسی اور انکساری کا اظہار کیا جائے۔ عبادت کے اظہار کے لیے قیام، رکوع اور سجدے کوبطورذریعہ استعمال کیاجاتاہے، جبکہ شرک اورعباد ت دونوں متضاد چیزیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جہاں شرک کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے، اسی طرح اس کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کوبھی بند کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعظیم کے طور پر غیر اﷲکے لیے قیام، رکوع اور سجدہ بھی حرام ہے، جیساکہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے: ’’جوشخص پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے دست بستہ کھڑے ہوں، وہ اپناٹھکانہ جہنم میں بنالے ۔‘‘     [ابوداؤد، الادب: ۵۲۲۹]

 رسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھائی جبکہ لوگ آپ کے پیچھے کھڑے تھے توآپ  نے فرمایا: ’’ایسا مت کیاکرو، جیسا کہ اہل فارس اپنے ’’بڑوں ‘‘کے ساتھ کرتے ہیں ۔ ‘‘    [ابوداؤد،الصلوٰۃ: ۶۰۲]

 رسو ل اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  بیماری کی وجہ سے سہارا لے کر تشریف لائے تولوگ آپ کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوگئے آپ نے فرمایا: ’’تم عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو وہ اس انداز سے ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ [مسندامام احمد، ص : ۲۵۳ ج:۵]

مذکورہ احادیث میں قیام کی ممانعت بیان ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک آدمی نے آپ سے دریافت کیاکہ کیا ملاقات کے وقت مہمان کے سامنے جھکنا چاہیے؟ آپ نے سختی کے ساتھ اس سے منع فرمایا اورصرف مصافحہ کرنے کی اجازت دی۔   [مسند امام احمد، ص: ۱۹۸ ج:۳]

اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کسی دوسرے کے سامنے معمولی ساجھکنا بھی شریعت کوناگوار ہے، چہ جائیکہ اس کے سامنے رکوع کیاجائے، غیراﷲ کے لیے سجدہ کرنابھی سخت منع ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ اونٹ نے آپ   کوسجدہ کیا تومہاجرین و انصار کہنے لگے کہ آپ کوحیوانات اور حجروشجر سجدہ کرتے ہیں، اس بنا پر ہمارازیادہ حق ہے کہ ہم آپ کوسجدہ کریں، آپ نے فرمایا: ’’ایسا کرناجائز نہیں ہے، تم اپنے رب کی عبادت کرو اور اپنے بھائی کااکرام کرو۔‘‘     [مسندامام احمد ص:۷۶ج۶]

 حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ شہر گیا تودیکھا کہ لوگ اپنے رہنماؤں کوسجدہ کرتے ہیں میں نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  سے عرض کیا: یارسول اﷲ! آپ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ آپ کوسجدہ کیا جائے، آپ   نے فرمایا ’’اگر تو میری قبر کے پاس سے گزرے توکیا اسے سجدہ کرے گا؟‘‘ عرض کیا، نہیں، اس پر آپ   نے فرمایا :’’پھر مجھے سجدہ کرنابھی جائز نہیں ہے۔ ‘‘ [ابوداؤ د ، النکاح: ۲۱۴۰]

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  نے عملاًآپ کوسجدہ کیا، رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا: ’’اے معاذ! یہ کیا ہے؟‘‘ حضرت معاذ  رضی اللہ عنہ  نے عرض کیا کہ میں ملک شام گیا تھا، وہاں میں نے دیکھا کہ وہ اپنے مذہبی رہنماؤں کوسجدہ کرتے ہیں، اس بنا پر میرے دل نے چاہا کہ آپ کوسجدہ کرو ں، آپ   نے فرمایا: ’’ایسا مت کرواور اگر غیراﷲ کے لیے سجدہ روا ہوتا تو میں بیوی کوحکم دیتا کہ وہ خاوند کی حق ادائیگی کے لیے اسے سجدہ کرے۔‘‘     [ابن ماجہ، النکاح: ۱۸۵۳]

قیام،رکوع اور سجدہ اگرچہ عبادت نہیں بلکہ مظاہرعبادت ہیں، تاہم ہماری شریعت میں غیراﷲ کے لیے انہیں اداکرنا سخت منع کیا گیا ہے، جیسا کہ سابقہ روایات سے معلو م ہوتا ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ پہلی امتوں کے لیے تعظیمی سجدہ جائز تھا، جیسا کہ سیدنایوسف  علیہ السلام  کوان کے بھائیوں نے سجدہ کیا تھا قرآن پاک میں اس کی صراحت موجود ہے۔    [۱۲/یوسف : ۱۰۰]

 لیکن ہمیں جودین عطا ہوا ہے وہ ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے مکمل صورت میں ملا ہے۔ اس میں عباد ت اورمظاہر عبادت سب اﷲ تعالیٰ کے لیے ہیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’قیام، قعود، رکوع اور سجدہ صرف اﷲ وحدہ لاشریک کاحق ہے جس نے زمین اورآسمان کوپیدا کیا ہے اورجو خالص اﷲتعالیٰ کاحق ہو، اس میں کسی غیر کاحق نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ غیراﷲ کی قسم اٹھانے کو شرک قرار دیا گیا ہے۔حدیث میں ہے کہ ’’جس نے اﷲ کے علاوہ کسی مخلوق کی قسم اٹھا ئی اس نے شرک کیا۔‘‘  [فتاوٰی ابن تیمیہ، ص: ۹۳ج: ۲۷]

 امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  مزید لکھتے ہیں کہ ’’خشوع وخضوع اورعاجزی وانکساری اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے کیونکہ یہ عبادت ہے جوکسی وقت بھی اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہوئی، البتہ سجدہ کرنااﷲ تعالیٰ کے احکام میں سے ایک حکم ہے جس کی بجاآوری ہم پر فرض ہے۔ اگراﷲ تعالیٰ تعظیم کے طور پر کسی دوسرے کوسجدہ کرنے کا ہمیں حکم دیتے توہم پر اس حکم کی پیروی کرنا ضروری تھا، کیونکہ اس میں اﷲ تعالیٰ کے حکم کی بجاآوری عبادت اورمسجودکی تعظیم تھی۔ یہی وجہ ہے کہ سجدہ کی دواقسام ہیں:

ایک سجدہ عبادت: جوکسی وقت بھی اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہوا ۔

دوسرا سجدۂ تعظیم: اس میں مسجود کی تعظیم ہوتی ہے۔ ہما رے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے تعظیم کایہ انداز اختیارکریں، البتہ ہم سے پہلے لوگوں کے لیے ایسا کرناجائز تھا۔‘‘  [فتاوٰی ابن تیمیہ، ص:۳۶۰ج: ۴]

  تفصیل کے لیے فتاوٰی ابن تیمیہ  رحمہ اللہ کے درج ذیل مقامات کامطالعہ مفید رہے گا ۔ (ص: ۳۷۲ج: ۱، ص: ۵۰۱، ۵۵۱، ۵۵۳ج: ۱۱، ص: ۸۱، ۹۲ ج: ۲۷)

واضح رہے کہ اس قسم کی فکری اورنظریاتی مباحث کے لیے بہت تفصیل درکار ہوتی ہے جوفتویٰ میں نہیں آسکتی، لہٰذا جوکچھ تحریر کیاگیا ہے اس میں سائل اپنے سوالات کے جواب تلاش کرسکتا ہے۔ [واﷲ اعلم]

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد:2، صفحہ نمبر:42

محدث فتویٰ

تبصرے