سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(247) قربانی کے ایام چار ہیں 10،11،12،13 ذی الحجہ

  • 26130
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1772

سوال

(247) قربانی کے ایام چار ہیں 10،11،12،13 ذی الحجہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قربانی کتنے دنوں تک کرنی جائز ہے؟ (سائل: انتظامیہ مسجد چینیانوالی لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قربانی کے ایام چار (10،11،12،13 ذی الحجہ) ہیں، کیونکہ قرآن مجید میں گنتی کے جن دنوں میں قربانی کے جانوروں پر تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے کا ذکر ہے، انہی کو ایام معدودات اور ایام معلومات کہا گیا ہے۔ بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ ان دونوں سے یوم النحر اور ایام تشریق 11،12،13 ذی الحجہ مراد ہیں۔

(قال ابن عباس الايام المعدودات ايام التشريق اربعة ايام: يوم النحر و ثلاثة بعد وروي عن ابن عمر و ابن الزبير و ابي موسيٰ مثل ذالك) (تفسير ابن كثير: ج 1 ص 245، طبع جديد ص 263)

"کہ گنتی کے چند دنوں سے مراد ایام تشریق، یعنی 10 ذی الحجہ اور تین دن اس کے بعد ہیں، یعنی 11،12،13۔ ابن عمر، ابن زبیر اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنھم سے بھی یہی تفسیر منقول ہے۔

﴿وَيَذكُرُوا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـتٍ عَلى ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعـمِ فَكُلوا مِنها وَأَطعِمُوا البائِسَ الفَقيرَ﴿٢٨﴾...سورة الحج

"اور ایام معلومات میں اللہ کا نام لے کر اپنی قربانیاں ذبح کریں۔" ان ایام معلومات سے بھی ایام تشریق کے چار دن مراد ہیں۔"

(عن ابن عباس الايام المعلومات يوم النحر و ثلاثه ايام بعده) (تفسير ابن كثير: ج 3 ص 217، طبع جديد 240)

"حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایام معلومات سے ایام تشریق مراد ہیں۔ یعنی یوم النحر اور تین دن اس کے بعد۔"

ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابراہیم نخعی اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ نے بھی یہی تفسیر بیان فرمائی ہے۔

شرح المہذب میں ہے:

(اتفق العلماء ان الايام المعدودات هي ايام التشريق وهي ثلاثة بعد يوم النحر) (شرح المهذب ج 9 ص 381 و هداية اخيرين ص 446)

یعنی احناف سمیت تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایام معدودات سے ایام تشریق مراد ہیں، یعنی 10 ذی الحجہ اور اس کے بعد تین دن 11،12،13 ہیں۔

پس جب یہ ثابت ہو چکا کہ 10 ذی الحجہ کے علاوہ ایام تشریق تین دن 11،12،13 ہیں تو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ متعدد مرفوع اور موقوف احادیث کے مطابق سارے ایام تشریق قربانی کے دن ہیں، جن میں قربانی کی جا سکتی ہے۔

چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے:

1۔ (قال رسول الله صلي الله عليه وسلم كل فجاج منيٰ منحر و كل ايام التشريق ذبح۔ اخرجه ابن حبان في صحيحه) (موارد الظمان الي زوائد ابن حيان: ص 249)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منیٰ کی ہر گلی قربان گاہ ہے اور سارے ایام تشریق (10،11،12،13 ذی الحجہ) میں قربانی ذبح کرنا جائز ہے۔"

2۔ (عن سليمان بن موسيٰ عن نافع بن جبير عن ابيه ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال ايام التشريق كلها ذبح) (التعليق المغني علي الدارقطني: ج 4 ص 284)

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارے ایام تشریق قربانی کے دن ہیں۔"

اعتراض:۔۔۔حافظ ابن قیم نے کہا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ اس کے راوی عبدالرحمٰن بن ابی حسین کی حضرت جبیر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں۔

جواب: امام بیہقی نے معرفۃ السنن میں اس انقطاع کا ذکر نہیں کیا۔ رواه البيهقي في المعرفة ولم يذكر فيه انقطاعا۔( التعليق المغني: ج 4 ص 284)

شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:

(وحجة الجمهور حديث جبير بن مطعم رفعه، كل فجاج منيٰ منحر و كل ايام التشريق ذبح اخرجه احمد لكن في اسناده انقطاع ووصله الدارقطني ورواته ثقات) (فتح الباري شرح صحيح البخاري: ج 10 ص 6)

کہ جمہور اہل علم کی دلیل حضرت جبیر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سارے ایام تشریق میں قربانی کی جا سکتی ہے، مگر یہ حدیث منقطع ہے، تاہم امام دارقطنی نے اس کو متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں، لہذا انقطاع ختم شد۔

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس اعتراض کے جواب میں لکھتے ہیں کہ جب امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہےتو پھر انقطاع کا اعتراض درست نہیں۔ (نيل الاوطار: ج 5 ص 142)

خود حافظ ابن قیم نے اس حدیث کو ذرا مختلف سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ایک جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے اور دوسرے اسامہ بن زید عن عطاء عن جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے اور اسامہ بن زید والی سند کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

(قال يعقوب بن سفيان ان اسامة بن زيد عند اهل المدينة ثقة مامون) (زاد المعاد: ج 1 ص 247 و مرعاة المفاتيح: ج 3 ص 364)

اسی مفہوم کی احادیث مسند بزار اور سنن بیہقی وغیرہ میں بھی مروی ہیں۔ اور اسی طرح ابن عدی نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ابن ابی حاتم نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی دو حدیثیں روایت کی ہیں مگر یہ دونوں ضعیف ہیں۔

خلاصہ کلام:

یہ کہ صحیح ابن حبان کی حدیث کے علاوہ باقی احادیث کی اسناد پر سخت جرح ہے مگر چونکہ اسناد متعدد ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں، لہذا بحیثیت مجموعی یہ حدیث حسن درجہ کی ہے اور اس سے استدلال بلاشبہ درست ہے۔

امام ابن حجر ہیثمی اور امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

(والحاصل ان للحديث طرقا يقوي بعضها بعضا فهو حسن يحتج به) (مرعاة المفاتيح: ج 3 ص 264 و نيل الاوطار: ج 5 ص 142)

پس یہ حسن حدیث حجت ہے اور فصل خصومات میں قابل استدلال ہے۔

حضرت علی، ابن عباس، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہم تابعین میں سے امام عطاء، حسن بصری، سلیمان بن موسیٰ، عمر بن عبدالعزیز، مکحول، داؤد ظاہری، امام اوزاعی، امام شافعی اور امام ابن تیمیہ کے بقول امام احمد رحمہ اللہ علیہم ایک قول کے مطابق اسی کے قائل ہیں کہ سارے ایام تشریق میں قربانی کرنی جائز ہے۔ (شرح المهذب: ج 8 ص 390، نووي: ج 2 ص 153، زاد المعاد: ج 1 ص 246، مرعاة: ج 3 ص 264)

امام ابن تیمیہ کا فیصلہ:

(آخر وقت ذبح الاضحية آخر ايام التشريق وهو مذهب الشافعي واحد قولي احمد۔ اختيارات ابن تيميه) (بحواله الاعتصام: 28 فروري 1969ء)

کہ قربانی ذبح کرنے کا آخری وقت ایام تشریق کا آخری دن 13 ذی الحجہ ہے، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے اور ایک قول کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ ارقام فرماتے ہیں:

(ان الراجع في ذالك مذهب الشافعي وهو ان وقت الاضحيه من يوم النحر الي آخر ايام التشريق) (تفسير ابن كثير ج 1 ص 245 و به قال الشافعي لحديث جبير رواه احمد و ابن حبان و تفسير ابن كثير ج 3 ص 223)

اس مسئلہ میں راجح امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے اور وہ یہ ہے کہ ایام تشریق کے آخری دن 13 ذی الحجہ تک قربانی جائز ہے۔ اور 12 ذی الحجہ کے قائلین کے پاس ایک ضعیف حدیث بھی موجود نہیں۔ سوائے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے ایک قول کے۔ (حاشيه نمبر 9 هدايه اخيرين ص 446 الدراية لابن حجر هامش الهداية ص 446)

اور اس طرح ان کا یہ دعویٰ کہ 12 ذی الحجہ تک قربانی کرنے پر امت کا اجماع ہے یہ دعویٰ بھی درست نہیں، کیونکہ حضرت علی ابن عباس، جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ، امام عطاء، حسن بصری، مکحول، اوزاعی، امام شافعی اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمہم اللہ اس اجماع کے خلاف ہیں لہذا اجماع کا دعویٰ کیسا؟ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا احادیث اور امام شافعی رحمہ اللہ، جمہور علمائے اسلام اور حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے مطابق قربانی کے ایام چار ہیں اور 13 ذی الحجہ تک قربانی کرنا بلاشبہ درست اور جائز ہے، منع کی کوئی مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی۔

هذا ما عندي والله تعاليٰ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص617

محدث فتویٰ

تبصرے