سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(23) اسباب اختیار کریں مگر حقیقی بھروسا مسبب الاسباب پر ہو

  • 26129
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1084

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسباب اختیار کے بارے میں کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

اسباب اختیار کرنے کی کئی اقسام ہیں:

پہلی قسم:

وہ ہے جو اپنے اصل کے اعتبار سے توحید کے منافی ہے ، مثلاً یہ کہ انسان کسی ایسی چیز سے وابستہ ہو جائے، جس میں کسی تاثیر کا ہونا ممکن ہی نہ ہو مگر وہ اس پر کامل اعتماد کرتے ہوئے اللہ تعالی سے اعراض کر لے جیسا کہ قبروں کے پجاری مصیبتوں کے وقت قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگتے ہیں، تو یہ ایسا شرک اکبر ہے جس کی وجہ سے انسان ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے اور اس طرح کے کسی سبب کو اختیار کرنے والے کے بارے میں یہ حکم ہے جو اللہ تعالی نے درج ذیل آیت کریمہ میں بیان فرمایا ہے:

﴿ إِنَّهُ مَن يُشرِك بِاللَّهِ فَقَد حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيهِ الجَنَّةَ وَمَأوىهُ النّارُ وَما لِلظّـلِمينَ مِن أَنصارٍ ﴿٧٢﴾... سورة المائدة

’’ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا، اللہ اس پر بہشت کو حرام کر دے گا اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘

دوسری قسم:

کسی صحیح شرعی سبب پر اعتماد کرے لیکن مسبب یعنی اللہ تعالی کی ذات پاک سے غافل ہو۔یہ بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے لیکن اس کے ساتھ انسان ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا کیونکہ اس نے سبب پر بھروسا کیا ہے اور مسبب یعنی اللہ کو بھول گیا ہے۔

تیسری قسم:

سبب پر صرف اتنا اعتماد کرے کہ وہ صرف سبب ہے اور حقیقی بھروسا اللہ تعالی کی ذات پاک پر ہی کرے اور اعتقاد یہ رکھے کہ یہ سبب بھی اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہے، وہ چاہے تو اسے رکھے اور اگر چاہے تو اسے ختم کر دے۔ اس سبب کا اللہ تعالی کی مشیت میں کوئی اثر نہیں ہے۔ سبب کے استعمال کا یہ طریقہ اصل کے اعتبار سے توحید کے منافی نہیں ہے نہ کمال کے اعتبار سے۔

شرعی اور صحیح اسباب موجود ہونے کے باوجود انسان کو چاہیے کہ وہ اسباب ہی پر انحصار نہ کرے بلکہ انحصار اللہ تعالی کی ذات گرامی پر کرے، چنانچہ وہ ملازم جس کا کامل اعتماد صرف اپنی تنخواہ پر ہے اور وہ مسبب یعنی ذات باری تعالی سے غافل ہے ، تو یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔ اگر اس کا اعتقاد یہ ہو کہ تنخواہ تو ایک سبب ہے اور مسبب اللہ سبحانہ وتعالی کی ذات پاک ہے، تو یہ توکل کے منافی نہیں ہے کیونکہ اسباب تو رسول اللہﷺ بھی اختیار فرمایا کرتے تھے ، جب کہ آپ کا حقیقی اعتماد اور بھروسہ صرف مسبب یعنی اللہ عزوجل کی ذات بابرکات پر ہوتا تھا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

 

فتاویٰ ارکان اسلام

عقائد کے مسائل: صفحہ66

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ