سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(28) خراجی زمین میں عشر

  • 26121
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1991

سوال

(28) خراجی زمین میں عشر
 السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زمین خراجی میں عشرلازم ہے یا نہ بینواتوجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ مسئلہ معارک عظیمہ سے ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  و امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  وامام احمد رحمۃ اللہ علیہ  کا یہ مذہب ہے کہ دونوں لازم ہیں اور امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں سوائے خراج کے اور کچھ لازم نہیں چنانچہ ہدایہ میں ہے (ولا عشر في الخارج من أرض الخراج )[1] فتح القدیر میں "مسلمان آدمی کی زمین عشر اور خراج جمع نہیں ہو سکتے ۔"صاحب ہدایہ نے اپنے مدعا کے اثبات میں تین ادلہ قائم کئے ہیں امام ابن ہمام نے تینوں کو مخدوش (منظور رفیہ کر دیا ہے چنانچہ صاحب ہدایہ نے استدلال بحدیث (لا يجتمع عشر وخراج في أرض مسلم)[2]کیا اور امام ابن ہمام نے فرمایا (وهو حديث ضعيف)[3]پھر آگے اس کی وجہ ضعف بیان کی پھر دو حدیثیں موقوف نقل کیں اس پر فرمایا: اس کا جواب یہ ہے کہ ابن مستدر نے عمر بن عبدالعزیز  رحمۃ اللہ علیہ  سے عشر اور خراج دونوں کا وصول کرنا بیان کیا ہے تو اب یہ بات نہ رہی کہ کسی صحابی سے اس کا جمع کرنا منفول نہیں ہے کیونکہ عمر بن عبد العزیز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے آثار کی پیروی کیا کرتے تھے اگر انھوں نے ان کو جمع نہ کیا ہوتا تو یہ بھی جمع نہ کیا کرتے ۔

 ونیز صاحب ہدایہ نے استدلال کیا کہ غالب ظن یہی ہے کہ حضرت عمر عثمان علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے خراجی زمین سے عشر نہیں لیا ہے اگر انہوں نے وصول کیا ہوتا تو اس کی تفصیل بھی کتابوں میں موجود ہوتی جیسے خراج کی تفصیل موجود ہے۔

اس پر امام ابن ہمام نے فرمایا: تم میری سنت اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی صفت پر کار بند رہو۔لیکن امام ابن ہمام نے ایک دلیل عدم وجوب کی نقل کی ہے فرماتے ہیں: اپنی ستھری کمائی اور زمین کی پیداوار میں سے خرچ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بارش اور قدرتی چشموں سے سیراب شدہ زمین کی پیداوار میں سے دسواں حصہ ہے اور جھٹے وغیرہ کی پیداوار سے بیسواں حصہ ہے۔

یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب خلفاء راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین  میں سے کسی نے عشر زمین خراجیہ سے نہ لیا تو اب بھی وہی حکم ہے گویا یہ حکم منجملہ اجماعیات صحابہ ہوا اور نیز اراضی بلاو عجم تبصریح علمائے کرائے خراجیہ ہیں چنانچہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی مالا بدمنہ میں وشاہ عبدالعزیز صاحب نے بعض تحریرات میں اس پر صراحت فرمائی ہے اور اخراجیہ اسے کہتے ہیں جس میں عشر نہ ہو تو ثابت ہوا کہ زمین خراجی میں عشرلازم نہیں ہزا واللہ اعلم حررہ محمد عبد الحق ملتانی(سید محمد نذیر حسین)

ہوالموافق :۔واضح ہو کہ ہر زمین کی پیداوار میں عشر یا نصف عشر (جیسی صورت ہو)لازم ہے بشرطیکہ مالک پیداوار مسلمان ہو اور پیداوار نصاب کو پہنچی ہو خواہ زمین خراجی ہو یا عشری اور خواہ زمین مالک پیداوارکی مملوک ہو یا نہ ہو ہر حالت میں عشر یا نصف عشر لازم ہے اس واسطے کہ ادلہ وجوب عشر و نصف  عشر عام ہیں۔

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَنفِقوا مِن طَيِّبـٰتِ ما كَسَبتُم وَمِمّا أَخرَجنا لَكُم مِنَ الأَرضِ...﴿٢٦٧﴾... سورة البقرة" ولقول النبي صلى الله عليه وسلم : (فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ"[4]

اور کوئی ایسی دلیل صحیح نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ عشر یا نصف صرف زمین عشری میں لازم ہے اور زمین خراجی میں لازم نہیں اور جس قدر دلیلیں اس مطلوب کے ثبوت میں حنفیہ کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں ان میں سے ایک بھی قابل احتجاج نہیں ایک دلیل ان کی یہ حدیث ہے۔

"لا يجتمع عشر وخراج في أرض مسلم" [5]

یعنی مسلمان کی زمین میں عشر اور خراج جمع نہیں ہوتا یہ حدیث بالکل ضعیف و باطل ہے حافظ ابن حجر درایہ صفحہ 268میں لکھتے ہیں ۔

"حديث لا يجتمع عشر وخراج في الارض علي مسلم) رواه ابن عدي عن ابن مسعود رضي الله تعاليٰ عنه رفعه بلفظ (لا يجتمع علي مسلم خراج وعشر) وفيه يحيٰٰ بن عنسبة وهو واه وقال الدارقطني هو كذاب وصح هذا الكلام عن الشعبي وعن عكرمة اخرجهما ابن ابي شيبة وصح عن عمر بن عبدالعزيز قال لمن قال انما..........." [6]

اور ایک یہ دلیل ہے کہ کسی امام نے عادل ہو خواہ جائر عشر اور خراج کو جمع نہیں کیا یعنی ایسا نہیں کیا کہ عشر بھی لیا ہو اور خراج بھی پس تمام آئمہ (جائر ہوں خواہ عادل ) کا اتفاق واجماع اس امر کے ثبوت کے لیے کافی  ہے کہ زمین خراجی میں عشر نہیں یہ دلیل بھی ناقابل استدلال ہے جیسا کہ مجیب نے علامہ ابن الہمام سے نقل کیا اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ درایہ میں لکھتے ہیں:

"عمر بن عبد العزیز اور زہری کے اختلاف کے باوجود اجماع کیسے قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے علاوہ اور کسی آدمی سے بھی اس کے خلاف تصریح نہیں ہے"

اور ایک دلیل یہ ہے کہ ظن غالب یہ ہے کہ خلفاء راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے زمین خراجی سے عشر نہیں لیا کیونکہ اگر یہ حضرات زمین خراجی سے عشر لیتے تو ضرور منقول ہوتا جیسا کہ ان کے خراج لینے کی تفصیلی باتیں منقول ہیں پس خلفائے راشدین  رضوان اللہ عنھم اجمعین  کا زمین خراجی سے عشر نہ لینا دلیل ہے کہ زمین خراجی میں عشر لازم نہیں یہ دلیل بھی نا قابل استدلال ہے اس واسطے کہ جب آیۃ قرآنیہ و احادیث نبویۃ کے عموم سے خراجی زمین میں عشر کا لازم ہونا ثابت ہے تو ظن غالب یہ ہے۔ کہ ان حضرات  رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے زمین خراجی سے ضرور عشر لیا ہو گا اور عدم ذکر نفی عدم شئی لازم نہیں واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبد الرحمٰن للبارکفوری عفا اللہ عنہ۔(سید محمد نذیرحسین)


[1]۔خراجی زمین کی پیداوار میں عشر نہیں ہے امام شافعی  رحمۃ اللہ علیہ ۔ مالک احمد بن حنبل  رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ عشر بھی ہو گا اور خراج بھی کیونکہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ حق ہیں ان کا محل سبب اور مصرف سب الگ الگ ہیں۔

[2]۔اس کا حاصل صرف اتنا ہی ہے کہ بعض تابعین کا مذہب ہے اور انھوں نے اس کو مرفوعاً بیان نہیں کیا۔

[3]۔کسی ظالم اور منصف بادشاہ نے عشر اور خراج کو جمع نہیں کیا۔

[4]۔عشر اور خراج مسلمانوں کی زمین میں جمع نہیں ہوتے۔

[5]۔یہ حدیث کہ عشر اور خراج مسلمان کی زمین میں جمع نہیں ہوتے۔ اس کی سند میں یحیی عیینہ بہت ضعیف ہے دار قطنی نے اس کو کذاب کہا ہے ہاں شعبی اور عکرمہ کا قول ضرور ہے عمر بن عبدالعزیز سے ایک آدمی نے کہا تھا کہ میں خراج ادا کرتا ہوں عشر نہیں دوں گا تو آپ نے فرمایا خراج زمین پر ہے اور عشر غلے کی پیداوار پر زہری نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ سے لے کر آج تک لوگ بٹائی اور ٹھیکہ پر زمین کی کاشت کرتے رہے اور پیداوار کی زکوۃ بھی دیتے رہے۔

اور عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کہ بارانی زمین میں عشر ہے اور چاہی وغیرہ میں نصف عشر عام ہے اس میں کسی زمین کی تخصیص نہیں ہے۔

[6]۔کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ عشر اور خراج جمع نہیں ہو سکتے اورابن جوزی اور ابن عدی نے جو یحییٰ بن عیینہ سے حدیث روایت کی ہے کہ مسلمان پر عشر اور خراج جمع نہیں ہو سکتے وہ بالکل باطل ہے۔

     ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاوی نذیریہ

جلد:2،کتاب الزکوٰۃ والصدقات:صفحہ:83

محدث فتویٰ

تبصرے