السلام عليكم ورحمةالله وبركاته!
میں دس ہزار روپے ماہانہ کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں ۔بینک مجھے بیس لاکھ قرض دے رہا ہے ٨.٢٥ % پے ١٠ سال کیلئے۔ مجھے ١٠ سال تک ٢٠٠٠٠ ہزار روپیہ ماہانہ بینک کو ادا کرنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ میں ہر مہینہ ١٠٠٠٠ کرایہ ادا کرتا ہوں ۔ بینک بول رہا ہے کی آپ کا ہر مہینہ کا کرایہ ١٠٠٠٠ اور ١٠٠٠٠ آپ کی تنخواہ سے ملا کے ٢٠٠٠٠ ہو جائےگا اور آپ آسانی سے یہ قسط ادا کر سکتے ہیں اور دس سال کے بعد یہ پراپرٹی آپ کے نام ہو جائےگی۔ تو کیا ایسی صورت میں میرے لئے بینک کا وہ قرض جائز ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!پہلی بات تو یہ ہے کہ اوپر آپ نے خود ہی لکھا ہے کہ بینک آپ کو ٨.٢٥ % سود پے قرض دے رہا ہے۔ جب اس قرض میں سود پہلے سے ہی شامل ہے تو پھر اسے کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت پاکستان میں کوئی بھی بینک ایسا نہیں ہے جو سودی کاروبار نہ کرتا ہو۔ اس لئے بینکوں سے قرضہ لینے سے بچنا چاہئے۔حتی کہ وہ بینک جو اپنے آپ کو اسلامی قرار دیتے ہیں، وہ اسلامی نہیں ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصوابمحدث فتوی |