وقت نماز جمعہ کا نزدیک اہل حدیث کے کب تک رہتا ہے۔ اور جمعہ کی نماز میں خطبہ کس قدر اور نماز کس قدر چاہیے۔ اور ایک شخص نے بارہ بجے سے خطبہ شروع کیا اور دو بجے خطبہ ختم کیا۔ اور کل بارہ منٹ میں نماز و دعا کو ختم کیا یہ موافق سنت کے ہوا یا خلاف؟
وقت نماز جمعہ بعینہ وقت ظہر ہے پس جب تک وقت ظہر کا باقی رہتا ہے اسی وقت تک جمعہ کا وقت بھی باقی رہتا ہے۔ چنانچہ فتح القدیر میں ہے۔
ان مالکا یقول بیبقاء وقتھا إلی الغروب قال ویجاب بان شرعیة الجمعة مقام الظہر علی خلاف القیاس لأنه سقوط اربع برکعتین فتراعی الخصوصیات التی ورد الشرع بھا اہ
اور امام شوکانی در بہیہ میں فرماتے ہیں۔
ووقتھا وقت الظہر لکونھا بد لاعنه
پس ثابت ہوا کہ سوائے سایہ اصلی کے ایک مثل تک نماز جمعہ کا وقت رہتا ہے۔ اور نماز جمعہ کا لمبا کرنا اور خطبہ کا مختصر ہونا حدیث مرفوع صحیح سے ثابت ہے ۔ مسلم شریف میں عمار بن یاسر سے مروی ہے۔
ان طول صلٰوة الرجل وقصر خطبة مئنة من فقہہ فاطیلوا الصلوٰة واقصر والخطبة الحدیث
پس ثابت ہوا کہ صورت مذکورہ فی السوال بالکل مخالف حدیث ومناقض سنت سنیہ ہے۔ فالحذر الحذر۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد ۱ ص ۳۲۶)
نماز جمعہ کا وقت زوال کے بعد ہے:
امام بخاری در صحیح نوشتہ باب وقت الجمعۃ اذا زالت الشمس ودریں باب حدیث انس بن مالک آور دہ (۱؎)
ان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم کان یصلی الجمعة حین تمیل الشمس
علامہ سندھی در حاشیہ بخاری نوشتہ وصیغۃ المضارع تدل علی الاعتیاد والاستمرار بعد کان ولہٰذا حافظ بن حجر در فتح الباری زیر حدیث مذکور نوشتہ فیہ اشعار بمواظبۃ صلی اللہ علیہ وسلم علی صلوۃ الجمعۃ اذا زالت الشمس و مؤد ایں معنی ست حدیث جابر
کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا زالت الشمس صلی الجمعة رواہ الطبرانی قال الحافظ ابن حجر فی التلخیص اسنادہ حسن
یعنی خواندن صلوۃ جمعہ بنو یہ مشروط بود بزوال شمس
وعن سلمة بن الاکوع رضی اللہ عن قال کنا نجمع مع رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا زالت الشمس رواہ البخاری ومسلم
وعن انس بن مالك قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا اشتد البرد بکر بالصلوٰة واذا اشتد الحرا برد بالصلوٰة عینی الجمعة رواہ البخاری
وعن عائشة قال کان الناس مھنة انفسھم وکانوا اذا احوا الی الجمعة راحوا فی ھیئتھم فقیل لھم لو اغتسلتم رواہ البخاری
ور داح نزد اہل لغت ذہاب بعد از زوال ست
واخرج مالک فی المؤطا عن مالک بن ابی عامر قال کنت اری طنفسة لعقیل بن ابی طالب تطرح یوم الجمعة الی جدار المسجد الغربی فاذا غشیہا ظل الجدار خرج عمر قال الحافظ ابن حجر اسنادہ صحیح و اخرج ابن ابی شیبة من طریق سوید بن غفلۃ انہ صلی مع ابی بکر و عمر حین زالت الشمس قال الحافظ ابن حجر اسنادہ قوی وفی حدیث السقیفة البخاری عن ابن عباس فلما کان یوم الجمعة وزالت الشمس خرج عمر فجلس علی المنبر واخرج ابن ابی شیبۃ من طریق ابی اسحاق انہ صلی خلف علی الجمعة بعد ما زالت الشمس قال الحافظ ابن حجر اسنادہ صحیح و اخرج ایضا من طریق ابی زرین قال کنا نصلی مع علی الجمعة فاحیانا تجد فیئا واحیانا لا نجد
ومراد از فئی سایہ است کہ استظلال میکروند بآں نہ نفی اصل ظل چنانچہ درروایتے از بخاری است ولیس لحیطان ظل نستظل بہ ودر روایتے از مسلم است
وما نجد فیئا نستظل بہ واخرج ابن ابی شیبة باسناد صحیح عن سماک بن حرب قال کان النمعمان بن بشیر یصلی بنا الجمعة بعد ما تزول الشمس واخرج ایضا ابن ابی شیبہ من طریق اولید بن العیزار قال ما رایت اماما کان احسن صلوٰة للجمعة من عمرو بن حریث فکان یصلیھا اذا زالت الشمس قال الحافظ ابن حجر اسنادہ صحیح))
غرض کہ احادیث صحیحہ و آثار صحابہ از خلفاء راشدین و غیر ہم بریں اند کہ صلوٰۃ جمعہ بعد از زوال ست و رایاتے کہ برخلاف این وارد اند ہمہ ضعاف یا محتمل اند کہ مقابلہ محکمات نمی توانند چنانچہ تفصیل ضعف آن در اولۂ مجوزین ذکر خواہم نمود۔ (فتاویٰ غزنویہ ص۵۳)
(۱؎) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں لکھا ہے۔ باب ہے اس بیان میں کہ وقت جمعہ کا سورج ڈھلنے کے بعد ہے اور اس باب میں حدیث انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی لائے ہیں کہ تحقیق رسول اللہ جمعہ کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے علامہ سندھی نے بخاری شریف کے حاشیہ میںلکھا ہے کہ صیغہ مضارع کا جب کَانَ کے بعد ہو تو اس کام کی عادت اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ اسی لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس حدیث کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمعہ کی نماز ہمیشہ سورج ڈھلنے کے بعد پڑھنا معلوم ہوتا ہے اور جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث جو طبرانی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے بھی اس مضمون کی تائید کرتی ہے حافظ ابن حجر نے تلخیص میں کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہے۔ مطلب اور مراد اس عبارت مذکورہ بالا سے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز جمعہ پڑھنا سورج ڈھلنے کے ساتھ مشروط تھا ( یعنی بغیر سورج ڈھلنے کے جمعہ نہ پڑھتے) بخاری اور مسلم میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سورج ڈھلنے کے بعد جمعہ کی نماز پرھتے تھے۔ اور بخاری شریف میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سخت سردیوں میں اول وقت میں پڑھتے تھے۔ اور سخت گرمیوں میں ٹھنڈی کرتے اور عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم مزدوری کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کی نماز پڑھنے جاتے تو اسی حالت میں (گردو غبار میں لبڑے ہوئے) چلے جاتے (اس لیے) ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نہا لیا کرو (تو تمہارے لیے بہت اچھا ہو) اور رداح لغت میں زوال کے بعد جانے کو کہتے ہیں۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مؤطا میں مالک بن ابی عامر سے روایت کی ہے کہ میں دیکھتا تھا کہ عقیل بن ابی طالب کا مصلیٰ جمعہ کے دن غربی دیوار کے ساتھ بچھایا جاتا تھا جب اس دیوار کا ساتھ مصلیٰ کو ڈھانک لیتا (یعنی اتنا قدر سایہ لنبا ہو جاتا) تو اس وقت عمر رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کے لیے نکلتے۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ اور ابن ابی شیبہ نے سوید بن غفلہ سے روایت کی ہے کہ اس نے ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سورج ڈھلنے کے بعد جمعہ کی نماز پڑھی۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو قوی کہا ہے۔ اور بخاری شریف کی حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب جمعہ کا دن ہوتا اور سورج ڈھل جاتا تو اُس وقت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے اور ابن ابی شیبہ نے ابو اسحاق سے روایت کی ہے کہ اُس نے علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے جمعہ کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد پڑھی۔ حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے اور ابن ابی شیبہ نے رزین سے روایت کی ہے کہ اُس نے کہا ہم علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے۔ تو کبھی سایہ پاتے کبھی نہ پاتے اور مراد اس سایہ سے وہ سایہ ہے جس سے وہ اپنے آپ کوسایہ کرتے (یعنی بہت سایہ نہ ہوتا تھا کہ جس سے ہم سایہ کریں) مطلق سایہ کی نفی نہیں ہے۔ چنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ دیواروں کا اس قدر سایہ نہ ہوتا کہ ہم اس کے ساتھ سایہ کریں۔ اور مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ ہم اس قدر سایہ نہ پاتے کہ جس سے ہم سایہ کریں۔ اور ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ سماک بن حرب سے روایت کی ہے کہ نعمان بن بشیر سورج ڈھلنے کے بعد ہم کو جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے اور ابن ابی شیبہ نے ولید بن عیزار سے روایت کی ہے کہ اس نے کہا میں نے عمرو بن خریث سے بڑھ کر کوئی امام جمعہ کی نماز اچھی طرح پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا اور عمرو بن حریث جمعہ کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے غرض یہ کہ صحیح حدیثیں اور چاروں خلیفوں اور ماسواء ان کے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار اسی پر ہیں کہ جمعہ کی نماز کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد ہے اور جو روایتیں اس مضمون کے برخلاف آئی ہیں و ہ سب کی سب ضعیف یا محتمل ہیں جو صحیح روایتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ ان کے ضعف کی تفصیل جمعہ کی نماز کو زوال سے پہلے جائز جاننے والوں کی دلیلوں کے باب میں بیان کروں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ
قبل زوال جمعہ پڑھنے والوں کے دلائل:
(؎۱) عن جابر بن عبد اللہ کان رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الجمعة ثم نذھب الی جمالنا فنریحھا زاد عبد اللّٰہ فی حدیثہ حین تزول الشمس رواہ مسلم
احتمال وارد کہ حین ظرف نرح باشد و ایں احتمال نریح باشد وایں احتمال مؤید قول مجوزین جمعہ قبل از زوال ست و احتمال وارد کہ ظرف یصلی باشد و ایں موافق قول جمہور ست و مطابق احادیث صحیحہ و احتمال راجح و احتمال اول مرجوح مخالف احادیث صحیحہ
وعن سہل قال ما کنا نقیل وال نتعذی الابعد الجمعة فی عہد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رواہ مسلم
یعنی قیلولہ و غدا بعد از جمعہ بودو بودن جمعہ قبل از قیلولہ و غداد لیل بین ست بربودن جمعہ قبل از زوال این ست آنچہ میگویند دریں حدیث مگر جمہور میگویند کہ مقصود حدیث این ست کہ صحابہ کرام برائے تحصیل اجر جزیل قبل از خوردن غداو کردن قیلولہ بروز جمعہ بمسجد میر فتند و منتظر جمعہ مشغول بذکر و دعا و صلوۃ می بودند نماز جمعہ بعد ا ززوال خواندہ من بعد غدا و قیلولہ فائتین می نمودند ومافات از وقت اگرچہ در غیر وقت کردہ شود تسمیۂ آن بہان اسم در ہر لغت جاری و ساری ست۔
وعن عبد اللہ بن سیدان السلمی رضی اللہ عنہ قال شھدت الجمعة مع ابی بکر فکانت خطبۃ وصلاتہ قبل نصف النھار ثم شہدتہا مع عمر فکانت صلاتہ وخطبۃ الی ان اقول انتصف النہار وشہد تہا مع عثمان فکانت صلاتہ وخطبۃ الی ان اقول زال النھار فما رأیت احدا عاب ذالک ولا انکرہ رواہ الدارقطنی والامام احمد فی روایة بنہ عبد اللہ قال النوی فی الخلاصة اتفقوا علی ضعف ابن سیدان وقال البخاری لا یتابع علی حدیثہ وقال ابن عدی یشبہ المجھول کذا فی النیل وقال اللالکائی مجہول لا حجة فیہ قالہ الذھبی فی المیزان واخرج بن ابی شیبۃ من طریق عبد اللّٰہ بن سملة قال صلی بنا عبد اللّٰہ یعنی ابن مسعود الجمعة ضحی وقال خشیت علیکم الحر قال شعبۃ عن عمرو بن مرة سمعت عبد اللّٰہ بن سلمة یحدثنا وانا لنعرف وننکر وکان قد کبر وقال البخاری لا یتابع علی حدیثہ وقال ابو حاتم والنسائی یعرف وینکر کذا فی المیزان للذھبی وقال الحافظ فی التقریب صدوق تغیر حفظہ واخرج ابن ابی شيبة من طریق سعید بن سوید قال صلی بنا معاویة الجمعة ضحی وسعید بن سوید ذکرہ ابن عدی فی الضعفاء قال البخاری لا یتابع فی حدیثہ
وانچہ بصیغہ تمریض از جابر و سعید امام احمد بروایت پسر او عبد اللہ دریں باب روایت نمودہ پس تعلیق ست و تعلقات غیر بخاری نزد اہل حدیث قابل احتجاج و لائق استناد نیستند۔ (فتاویٰ غزنویہ ص۵۵)
(۱؎) جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھتے تھے پھر ہم اپنے اونٹوں کو پچھلے پر چرانے کو لے جاتے تھے عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حدیث میں یہ لفظ زیادہ کیا ہے کہ جب سورج ڈھل جاتا۔ روایت کیا اس حدیث کو مسلم نے۔ سو اس جگہ ایک احتمال یہ ہے کہ لفظ حین فعل نریح کا ظرف ہو (یعنی ہم اپنے اونٹوں کو سورج ڈھلنے کے وقت چرانے کے لیے لے جاتے تھے تو معلوم ہوا کہ نماز جمعہ سورج ڈھلنے سے پہلے پڑھتے تھے) یہ احتمال نماز جمعہ زوال سے پہلے پڑھنے کو جائز جاننے والوں کے قول کا مؤید ہے۔ اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ (لفظ حین) فعلی یصلی کا ظرف یعنی مفعول فیہ ہو (تو معنی یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے) اور یہ معنی موافق قول جمہور اور مطابق احادیث صحیحہ کے ہے اور یہی احتمال راجح ہے اور پہلا احتمال مرجوع اور صحیح حدیثوں کے مخالف ہے اور مسلم شریف میں سہل بن صعد سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نماز جمعہ کے بعد یہی کھانا کھاتے اور بعد ہی قیلولہ کرتے تھے قیلولہ کرنا اور کھانا کھانا نماز جمعہ پڑھنے کے بعد میں ہوتا تھا اور نماز جمعہ کو قیلولہ اور کھانا کھانے سے پہلے پڑھنا نماز جمعہ زوال سے پہلے پڑھنے پر صاف کھلی دلیل ہے (جمعہ کی نماز زوال سے پہلے پڑھنے والے اس حدیث کا یہی معنی کرتے ہیں مگر جمہور (رحمہم اللہ) یہ کہتے ہیں کہ مطلب اس حدیث کا یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) بہت سا ثواب حاصل کرنے کی غرض سے جمعہ کے دن کھانا کھانے اور قیلولہ کرنے سے پہلے ہی مسجد میں تشریف لے جاتے اور نماز جمعہ کے انتظار میں ذکر اور دعا اور نماز میں مشغول رہتے۔ جمعہ کی نماز زوال کے بعد پڑھ کر کھانا اور قیلولہ جو رہ گئے تھے پیچھے ادا کرتے اور جو چیز اپنے وقت پر ادا نہ وہ سکے وہ اگرچہ اپنے غیر وقت میں ادا کی جائے اس کا اپنے پہلے نام سے نامزد ہونا ہر زبان میں مستعمل ہے اور عبد اللہ بن سیدان سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی تھی تو آپ کا خطبہ اور نماز دن ڈھلے سے پہلے ہوتے تھے میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی تو آپ کا خطبہ اور نماز بھی دن ڈھلے سے پہلے ہوتے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی پڑھی تو آپ کا خطبہ اور نماز بھی زوال سے پہلے ہوتے تھے پس میں نے کسی ایک کو اس بات پر عیب لگاتے اور انکار کرتے نہیں دیکھا روایت کیا اس حدیث کو دارقطنی نے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں جس کا راوی اس کا بیٹا عبد اللہ ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے خلاصہ میں کہا ہے کہ ابن سیدان کے ضعیف ہونے پر علماء نے اتفاق کیا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی حدیث کی کسی نے متابعت نہٰں کی۔ اور ابن عدی نے کہا کہ یہ مجہول ہے۔ نیل الاوطار میں بھی اسی طرح ہے اور ذہبی نے میزان میں کہا ہے کہ لالکائی نے اس کو بالکل مجہول کہا ہے اور کہا کہ یہ حجت پکڑنے کے لائق نہیں ہے۔ اور ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن سلمہ سے روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود نے ہم کو جمعہ کی نماز چاشت کے وقت پڑھائی۔ اور کہا کہ میں تم پر گرمی کا خوف رکھتا ہوں۔ شعبہ نے عمرو بن مرہ سے روایت کی ہے کہ عبد اللہ بن سلمہ ہم کو حدیث سنایا کرتا تھا اور ہم اس کی بعض حدیثیں مان لیتے اور بعض سے اعراض کرتے اس لیے کہ وہ بڈھا ہو گیا تھا اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی حدیث کی کسی نے متابعت نہیں کی۔ اور ابو حاتم اور نسائی نے کہا کہ اس کی بعض حدیثیں مانی جاویں اور بعض نہ مانی جاویں ذہبی کی میزان میں بھی اسی طرح ہے اور حافظ ابن حجر نے تقریب میں کہا ہے کہ یہ سچا تو ہے مگر اس کے حافظہ میں خلل آ گیا ہے اور ابن ابی شیبہ نے سوید سے روایت کی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو جمعہ کی نماز چاشت کے وقت پڑھائی اور سعید بن سوید (راوی) کو ابن عدی نے ضعیفوں میں بیان کیا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی حدیث کی کسی نے متابعت نہیں کی اوروہ جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت میں جس کا راوی اس کا بیٹا عبد اللہ ہے اور سعید رضی اللہ عنہ سے مجہول طور پر روایت کی ہے وہ تعلیق ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیقات کے سوا جتنی تعلیقات ہیں وہ اہل حدیث کے نزدیک دلیل پکڑنے کے لائق نہیں ہیں۔