السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص ’’احمد علی‘‘ نے ’’خان محمد‘‘ سے ایک بکرا خریدا۔ دونوں کے درمیان سودا طے پا گیا۔ مشتری نے کہا میں بکرا کل لے جاؤں گا۔ اگلی رات بکرا بائع کے گھر سے چوری ہو گیا پوچھنا یہ ہے کہ آیا:(۱) مشتری کو اس کی رقم بائع کو ادا کرنی ہوگی یا نہیں؟ (۲) ایسی بیع شریعت میں منعقد ہو جاتی ہے یا نہیں۔(احمد علی چیچہ وطنی، ضلع ساہیوال) (۱۹ مارچ ۲۰۰۴ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعاً بیع کے پانچ ارکان ہیں:
۱۔ بائع( فروخت کنندہ) جو چیز وہ فروخت کررہا ہے ضروری ہے کہ اس کا مالک ہو یا اس کی بیع کی اس کو اجازت ہو۔عقل مند ہو ، بے وقوف نہ ہو۔
۲۔ مشتری: (خریدار) ضروری ہے کہ جائز التصرف ہو، نادان اور بچہ نہ ہو۔
۳۔ مبیع:(بیچا جانے والا سامان) وہ جائز اور پاک ہو اور بائع اس کی ادائیگی پر قادر ہو۔ اور مشتری کو اس کا علم ہو، چاہے وصف کے اعتبار سے ہو۔
۴۔ ایجاب و قبول قول یا فعل سے حاصل ہو۔ مثلاً مشتری کہتا ہے یہ چیز مجھے فروخت کردیں! بائع کہتا ہے میں نے فروخت کردی۔ یا مثلاً مشتری کہتا ہے یہ کپڑا مجھے فروخت کردیں، بائع اس کو پکڑا دیتا ہے تو بیع مکمل ہو جائے گی۔
۵۔ باہمی رضا مندی: طرفین کی رضامندی کے بغیر بیع منعقد نہیں ہوتی۔ سنن ابن ماجہ میں بسند حسن حدیث ہے۔’اِنَّمَا الْبَیْعُ عَنْ تَرَاضٍ‘ ’’کہ بیع تو باہمی رضا مندی سے مکمل ہوتی ہے۔‘‘
موجودہ بیع میں چونکہ تمام ارکانِ بیع موجود ہیں لہٰذا بیع منقد ہوگی۔ جب شرعی طور پر بیع قابل اعتبار ہے تو ظاہر ہے بائع کے پاس اس بکرے کی موجودگی محض امانت کی حیثیت سے تھی، چوری کی صورت میں مشتری کی ضائع ہوگی بائع اس کا ذمہ دار نہیں، بشرطیکہ اس کی کوتاہی ثابت نہ ہو۔ اگر اس چوری میں بائع کی غفلت اور کوتاہی ثابت ہو جائے تو پھر وہ ذمہ دار ہے۔
جب شرعاً بیع درست ہے تو ظاہر ہے کہ مشتری کو قیمت ادا کرنا ہوگی ۔ واضح ہو کہ فی الفور قیمت کی ادائیگی ضروری نہیں بعد میں بھی ادا ہو سکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب