السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم جناب حافظ صاحب! ایک آدمی نے امانت کے طور پر مدرسہ کے ریال تبدیل کرنے کے لیے مجھے دئیے اور وہ ریال میری کوتاہی کے بغیر میری جیب سے جیب تراش نے نکال لیے۔ مجھے اس کی کچھ خبر نہ ہوئی۔ بعد میں جب مجھے احساس ہوا تو بسیار تلاش کے باوجود وہ نہ مل سکے۔ منتظمین مدرسہ مجھ سے وہ ریال واپس طلب کرتے ہیں۔ میں غریب آدمی اور طالب علم بھی ہوں۔ ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا۔ میرے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں کیا حکم ہے؟ (جاوید اقبال۔ فیصل آباد) (۱۳ اکتوبر ۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حقائق اور واقعات سے اگر یہ بات واضح ہو جائے کہ رقم کا ضیاع آپ کی کوتاہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس صورت میں آپ اس رقم کی ادائیگی کے ذمہ دار ہیں۔ اور اگر کمی کوتاہی ثابت نہ ہو تو ریالات ادا نہیں کرنے کیونکہ اس کی حیثیت امانت کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب