السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ میرے دو بچے ہیں جن کی عمریں ۱۴ ماہ اور ساڑھے چار سال ہیں۔
یہ دونوں انتہائی تنگ کرتے ہیں۔ ہمارا گھرانہ مذہبی ہے بچوں کو قرآن اور احادیث بھی بتائی جاتی ہیں اور پردہ بھی۔ نیز ٹی وی بالکل بند ہے۔ اکثر وبیشتر میری بیوی کو نماز پڑھنے میں بہت تنگ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک فلم ہے جس میں ہاتھی، شیر، گھوڑے وغیرہ ہیں ہمیں اِس حدیث کا پتا چلا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گھوڑوں سے کھیلتی تھیں تو حضور ﷺ منع نہیں فرماتے تھے۔
فتویٰ عنایت کریں کیا مذکورہ صورت میں میری بیوی نماز اور قرآن خشوع سے پڑھنے کی خاطر لالچ کے طور پر بچوں کو یہ فلم ٹی وی پر لگا کے دے سکتی ہے؟ کیا مندرجہ بالا حدیث تصویروں کی حرمت کے احکام کے باعث منسوخ ہے؟ (فرحان احمد، کراچی)( ۱۳ ۔اپریل۲۰۰۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام کھیل براہِ کھیل کا قائل نہیں۔ تصویر کا اس وقت جواز ہے جب اس سے مصلحت یا تربیت کا کوئی پہلو وابستہ ہو جو تہذیب نفوس، ثقافت یا تعلیم کے لیے مفید ہو مشار الیہ حدیث کو اہل علم نے تربیت اولاد پر محمول کیا ہے منسوخ نہیں۔ چناں چہ امام قرطبی فرماتے ہیں:
’ قَالَ الْعُلَمَاءُ وَ ذٰلِكَ لِلضَّرُوْرَةِ اِلٰی ذٰلِكَ وحاجة البنات حتی یتدربن علی تربیة اولادهن ثم انه لا بقاء لذلك‘ز(احکام القرآن: ۲۷۵/ ۱۴)
مذکورہ بالا کھیل میں چوں کہ تربیت اولاد مقصود نہیں اس لیے اس پر بچوں کو مصروف رکھنا ناجائز ہے۔ ان کو مشغول رکھنے کا کوئی مباح طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ مثلاً: کھانے کے لیے ٹافیاں یا بچوں کی کسی مرغوب شے سے ان کا دل بہلایا جاسکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب