السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسولِ اکرمﷺ نے دعا فرمائی:’اَللّٰهُمَّ اَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ اَوْ بَعَمْرِ بْنِ هِشَامٍ‘(سنن الترمذی،بَابٌ فِی مَنَاقِبِ أَبِی حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،رقم:۳۶۸۳)
سوال یہ ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے دونوں کے لیے دعا کیوں نہ کی۔ دونوں میں سے ایک کیوں مانگا؟ (جواب کا منتظر حافظ محمد فاروق ، نیو کیمپس لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلے روایت کے اصل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’ اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَحَبِّ هَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْكَ بِأَبِی جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ . قَالَ: وَکَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَیْهِ عُمَرُ ‘جامع ترمذی،ج:۱۰،ص:۱۶۹، مع تحفة الاحوذی) (سنن الترمذی،بَابٌ فِی مَنَاقِبِ أَبِی حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،رقم:۳۶۸۱)
’’ یعنی یا اللہ! ابوجہل یا عمر دونوں میں سے جو تیرے ہاں زیادہ پیارا ہے اس کے ذریعہ اسلام کو قوت عطا فرما۔‘‘ راوی نے کہا اللہ کے ہاں دونوں میں سے محبوب ترین عمر رضی اللہ عنہ تھے۔‘‘
یہاں جو اشتباہ پیدا ہوتا ہے وہ لفظ أو(یا) سے ہے اس کا جواب یوں ہے کہ یہاں اَوْ شک کے لیے نہیں بلکہ تنویع کے لیے ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے یا دونوں ہی مسلمان ہو کر حاضرِ خدمت ہوں لیکن حکمت ِ الٰہیہ کا تقاضا یہ تھا کہ صرف عمر مسلمان ہو۔
اس مسئلہ کو دوسری مثال سے یوں سمجھئے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جو شخص جہادکے لیے نکلتا ہے پھر واپس آتا ہے تو وہ ’…نَالَ مِنْ أَجْرٍ أَوْ غَنِیمَةٍ‘صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ ﷺ: أُحِلَّتْ لَکُمُ الغَنَائِمُ،رقم: ۳۱۲۳) ثواب یا مالِ غنیمت لے کر لوٹتا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مجاہد کو اگر مالِ غنیمت ہاتھ لگ گیا تو وہ اجر و ثواب سے محروم ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ ثواب اور مالِ غنیمت دونوں جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ یہاں بھی أو تنویع کے لیے ہے جس طرح کہ پہلی حدیث میں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب