سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(937) عقل کا مرکز دل ہے یا دماغ؟

  • 26052
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2829

سوال

(937) عقل کا مرکز دل ہے یا دماغ؟

 

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بندہ کو دو سوالوں کے جواب درکار ہیں، امید ہے تسلی بخش اور مدلل جواب دے کر شکریہ کاموقع دیں گے۔

1 -قرآن مجید میں ہے:

(۱) ﴿لَهُم قُلوبٌ لا يَفقَهونَ بِها...﴿١٧٩﴾... سورة الأعراف

(۲) ﴿أَفَلا يَتَدَبَّرونَ القُرءانَ أَم عَلىٰ قُلوبٍ أَقفالُها ﴿٢٤﴾... سورة محمد

مندرجہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ غوروتدبر اور فہم کا تعلق دل سے ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کام دل کا نہیں ہے بلکہ دماغ کا ہے۔ (جواب کا منتظر حافظ محمد فاروق ، نیو کیمپس لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عقل و شعور اور تدبر و فہم کا اصل محل اور مقام بنی آدم کا دل ہے جس طرح کہ متعدد قرآنی آیات اور بے شمار احادیث نبویہ میں تصریح موجود ہے۔بطورِ مثال ’’سورۃ الحج‘‘ کی آیت نمبر:۴۶ ملاحظہ فرمائیں: فرمانِ باری  تعالیٰ ہے:

﴿أَفَلَم يَسيروا فِى الأَرضِ فَتَكونَ لَهُم قُلوبٌ يَعقِلونَ بِها أَو ءاذانٌ يَسمَعونَ بِها فَإِنَّها لا تَعمَى الأَبصـٰرُ وَلـٰكِن تَعمَى القُلوبُ الَّتى فِى الصُّدورِ ﴿٤٦﴾... سورة الحج

’’کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی تاکہ ان کے دل(ایسے) ہوتے کہ ان سے سمجھ سکتے اور کان (ایسے) ہوتے کہ ان سے سن سکتے۔ بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیںہوتیں بلکہ دل جو سینوں میں ہے(وہ)اندھے ہوتے ہیں۔‘‘

زیر آیت ہذا امام شوکانی رقمطراز ہیں:

’ وَ اسند التعقل الی القلوب لانها محل العقل کما ان الآذان محل السمع و قیل العقل محله الدماغ و لا مانع من ذلك فان القلب هو الذی یبعث علی ادراك العقل و ان کان محله خارجا عنه‘ (فتح القدیر،ج:۳،ص:۴۵۹)

’’یعنی ادراک و شعور کی نسبت قلوب کی طرف اس لیے کہ وہ عقل کا محل ہیں جس طرح کہ کان سماع کا محل ہیں۔ اور ایک غیر معروف قول یہ بھی ہے کہ عقل کا محل دماغ ہے۔ یہ بات اوّل الذکر قول کے منافی نہیں کیونکہ دل منشائے ادراک و فہم ہے۔ اگرچہ عقل کا جائے استقرار قلب سے خارج دماغ ہے۔‘‘

اس توضیح و تشریح سے معلوم ہوا کہ اصلاً دل ہی چشمۂ ظہورِ عقل و فہم ہے۔ اور من وجہ اس کا تعلق دماغ سے بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا قرآن نے اصل کے اعتبار سے فہم و تدبر کی نسبت دل کی طرف کی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿  إِنَّ فى ذ‌ٰلِكَ لَذِكرىٰ لِمَن كانَ لَهُ قَلبٌ أَو أَلقَى السَّمعَ وَهُوَ شَهيدٌ ﴿٣٧﴾... سورة ق

اورعلامہ فخر الدین رازی کے سوال نمبر۴ کا عنوان قائم کرکے فرماتے ہیں:

’ هَلْ تَدُلُّ الآیَة عَلٰی اَنَّ الْعَقْلَ هُوَ الْعِلْمُ وَ عَلٰی اَنَّ مَحَلَّ الْعِلْمَ هُوَ الْقَلْبُ؟ ‘

’’کیا آیت اس بات پر دال ہے کہ عقل سے مراد یہاں علم ہے اوراس بات پر بھی کہ علم کا محل دل ہے؟‘‘

جواباً فرماتے ہیں، ہاں اس لیے کہ اللہ کے قول﴿قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِهَآ﴾سے مقصود علم ہے اور اللہ کا قول﴿یَّعْقِلُوْنَ بِهَآ﴾مثل دلیل کے ہے کہ قلب آلہ فہم و ادراک ہے۔ پس اس سے ثابت ہوا کہ دل محل عقل و فہم ہے۔ تفسیر کبیر جزئ:۲۳،ص:۴۵

نیز مفسر قرآن مولانا امیر علی فرماتے ہیں: بعض نے لکھا ہے آیت میں قلوب کی طرف سمجھنے کی نسبت فرمائی۔ بقولہ﴿یَّعْقِلُوْنَ بِهَآ﴾یعنی ان قلوب سے سمجھتے تو یہ نسبت اس وجہ سے ہے کہ عقل کا محل قلب ہے جیسے سننے کا محل کان۔ (تفسیر مواہب الرحمن ،جز:۱۷،ص:۳۴۳)

اور جن متجدّدین اور فلاسفہ نے عقل کا ابتدائی اور استقراری تعلق صرف دماغ سے تسلیم کیا ہے وہ سعی موہومہ اور تحصیل لاحاصل کا شکار ہیں ۔ خواہ مخواہ اپنی کمزور عقل کے سہارے تاویلاتِ باطلہ پر اعتماد کرکے منصب ِ نبوت کو بھلا بیٹھنا اچھی بات نہیں۔ دراں حالیکہ صحیح عقل ہر لمحہ نبوت کی روشنی کی محتاج ہے۔والتوفیق بید اللہ۔

کتاب و سنت سے قطعاً اس نظریہ کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ واضح نصوص کے برعکس ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہے : ’إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ ‘(سنن الترمذی،بَابٌ فِی مَنَاقِبِ أَبِی حَفْصٍ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ،رقم:۳۶۸۲، مع تحفة الاحوذی)

’’یعنی اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔‘‘

حدیث ہذا سے بھی معلوم ہوا کہ اصل منبع تعقّل دل ہے۔

یاد رہے اس مسئلہ میں مولانا مودودی مرحوم سے لغزش ہوئی ہے انھوں نے اس قسم کے کلام کو محض ادبی اسلوب اور تخیل قرار دے کر ٹال دیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے گویا اس میں مسلمہ امر کا افکار ہے جس کی مزید تشریح و تفسیر محتاجِ بیان نہیں۔ (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، ج:۱،ص:۲۳۶)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:645

محدث فتویٰ

 

تبصرے