سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(932) کیا کراماً کاتبین غیبی اُمور کا علم رکھتے ہیں؟

  • 26047
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 778

سوال

(932) کیا کراماً کاتبین غیبی اُمور کا علم رکھتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کراماً کاتبین قلبی اعمال پر ہی مطلع ہو جاتے ہیں، یا عملی صورت میں ظہور کے بعد؟ (سائل حبیب اللہ)(۱۳ جولائی ۱۹۹۰ء )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتاب و سنت سے یہ بات بداہۃً معلوم ہے کہ دلوں کے بھیدوں سے صرف اللہ عزوجل ہی واقف ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔ وہ فرشتے ہوںیا انس و جن وغیرہ۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأَسِرّوا قَولَكُم أَوِ اجهَروا بِهِ إِنَّهُ عَليمٌ بِذاتِ الصُّدورِ ﴿١٣ أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ ﴿١٤﴾... سورة الملك

’’اور تم ( لوگ) بات پوشیدہ کہو یا ظاہر وہ دل کے بھیدوں تک سے واقف ہے ، بھلا جس نے پیدا کیا ، وہ بے خبر ہے ؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کو جاننے والا اور ہر چیز سے آگاہ ہے۔‘‘

اور صورتِ مرقومہ میں فرشتوں کی طرف جس علم کی نسبت کی گئی ۔ یہ وہ علم ہے جو تجدد اور استمرار کی شکل میں معرضِ وجود میں آتا ہے۔ آیت کریمہ میں مضارع کے صیغوں کا استعمالبھی اس بات کی واضح دلیل ہے۔ اس لیے کہ صیغہ مضارع میں حال اور مستقبل کا زمانہ پایا جاتا ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:

﴿إِذ يَتَلَقَّى المُتَلَقِّيانِ عَنِ اليَمينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعيدٌ ﴿١٧ ما يَلفِظُ مِن قَولٍ إِلّا لَدَيهِ رَقيبٌ عَتيدٌ ﴿١٨﴾... سورة ق

’’جب (وہ کوئی کام کرتا ہے تو) دو لکھنے والے جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں، لکھ لیتے ہیں کوئی بات اس کی زبان پر نہیں آتی مگر ایک نگہبان اس کے پاس تیار رہتا ہے۔‘‘

لیکن اس پر یہ اعتراض واد ہوتا ہے:

’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے حکم ہوتا ہے کہ فرشتو! اسے تحریر میں مت لانا حتی کہ عمل کر گزرے ،اگریہ عمل کر لیتا ہے تو صرف ایک برائی لکھو۔ اور اگر اس نے میری رضا کی خاطر برائی کو ترک کردیا تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو۔(صحیح البخاری، کتاب التوحید،بَابُ قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی: (یُرِیدُونَ أَنْ یُبَدِّلُوا کَلاَمَ اللَّہِ) (الفتح:۱۵)، رقم:۷۵۰۱)

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے باطنی قلبی امور پر مطلع ہو جاتے ہیں۔

اس اشکال کا جوابیوں ہے کہ یہاں فرشتوں کا قلبی امر پر مطلع ہونا اللہ کی طرف سے آگاہی پانے کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ’’ابن ابی الدنیا‘‘ نے ابو عمران الجونی سے بیان کیا ہے کہ بارگاہِ ایزدی سے آواز آتی ہے فلاں کے لیے اتنا اتنا ثواب لکھ دو۔ فرشتہ عرض کرتا ہے۔ اے پروردگار! اس نے تویہ عمل کیا بھی نہیں۔ اللہ فرماتا ہے ، اس نے نیت تو کرلی ہے۔ اوربعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ برائی کی بدبو اور نیکی کی خوشبو کی وجہ سے فرشتوں کو معلوم ہوجاتا ہے۔ یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ فرشتے میں علم کا ادراک پیدا کردیتا ہے، جس سے اس کو محسوس ہو جاتا ہے۔

بہرصورت وجہ کوئی بھی ہو، یہ بات مسلمہ ہے کہ دلوں کے راز صرف اللہ کے ہاں محفوظ ہیں ا ور وہی واقف ہے۔ اس کے سوا یہاں تک کسی کی رسائی نہیں۔ ﴿اِنَّهُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْر﴾ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتح الباری،ج:۱۱،ص:۳۲۵)

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:640

محدث فتویٰ

تبصرے