السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دورانِ سفر ایک مولوی صاحب کو دیکھا گیا کہ معتقدین ان کے پاؤں ،گھٹنے اور ہاتھ چوم رہے ہیں۔ میں نے اس پر اعتراض کیا تو انھوں نے اس کے ثبوت میں ایک دو روایتیں لکھ کر مجھے دیں جو یہ ہیں:
و عن بریدة بن الحصیب رضی الله تعالیٰ عنه قال سأل اعرابی النبی صلی الله علیه وسلم آیة تدل علی انه رسول الله صلی الله علیه وسلم فقال له قل لتلك الشجرة رسول الله یدعوك فدعاها فمالت الشجرة عن یمینها و شمالها و بین یدیها و خلفها فتقطعت عروقها ثم جاءت تنحد الارض تبحر عروقها مغبرة حتی وقفت بین یدی رسول الله صلی الله علیه وسلم فقالت ’ السلام علیك یا رسول الله‘ قال الاعرابی مرها فلترجع الی منبتها فرجعت فدلت عروقها فاستوت فقال الاعرابی ائذن لی ان اسجد لك ( ای بعد ان اٰمن کما صرح فی روایة ) فقال له صلی الله علیه وسلم لو امرت احدا ان یسجد لاحد لامرت المرأة ان تسجد لزوجها فقال الاعرابی فأذن لی اقبّل یدیك و رجلیك (رواه البزار) و اخرجه العلامه زینی دحلان المکی ،ص:۳۰۳، ج:۲)
وَ فِی السِّیْرَةِ اَیْضًا وَ شَرح الْمَوَاهِبِ فِی قِصَّةِ وَفْدِ عَبْدِ الْقَیْسِ۔ اِنَّهُمْ دَخَلُوْا عَلَی النَّبِیِّ فَتَبَادَرُوْا یُقَبِّلُوْنَ یَدَهُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ وَ رِجْلَهُ …الخ(ص:۱۵۰،ج:۳) وَ فِی الدُّرِ الْمُخْتَارِ طلب من عالم او زاهدان یدفع الیه قدمه و یمکنه من قدمه لِیُقَبِّلَهُ اجابه و قیل لا یرخص…
وَ فِی رَدّ الْمُخْتَار یَدْفَعُ اِلَیْهِ قدمه اجابه لما اَخْرَجَهُ الْحَاکِمُ اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ سَلَّمَ فََقَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰهِ! اَرِنِیْ شَیْئًا اَزْدَاد بِه یَقِیْنًا فَقَالَ اِذْهَبْ اِلٰی تِلْكَ الشَّجَرَةِ … فَادْعُهَا فَذَهَبَ اِلَیْهَا فَقَالَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهَ یَدْعُوْكَ فَجَاءَتْ حَتّٰی سَلَّمْتُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا ارْجِعِیْ فَرَجَعَتْ قَالَ ثُمَّ اَذِنَ لَهُ فَقَبَّلَ رَأْسَهُ وَرِجْلَیْهِ وَ قَالَ الْحَاکِمُ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ ۔ ( شامی،ص: ۳۷۸،ج:۵)
براہِ کرم ارشاد فرمائیں کہ ان کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ ساتھ میں اصل مسئلہ پر ممکن روشنی ڈال دیجیے گا۔ (بندہ محمد بشیر لکی شاہ صدر، ضلع دادو،سندھ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) اس بارے میں اصل امر ثابت صرف مصافحہ ہے بکثرت احادیث اس کے ثبوت و فضیلت میں وارد ہیں اور اسی پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل تھا۔ کسی صحیح حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ صحابہ کرام مصافحہ کے علاوہ تعظیماً آنحضرتﷺ کے … یا آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھ پاؤں چومتے ہوں۔
علامہ محمد منیر دمشقی رحمہ اللہ ، شرح ’’عمدۃ الاحکام‘‘ کے حاشیہ میں لکھتے ہیںـ:
’ لَمْ یَرِدْ فِی الصَّحِیحِ اَنَّ اَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ کَانَ یُقَبِّلُ یَدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَلَا یُقَبِّلُ بَعْضُهُمْ یَدَ بَعْضٍ‘ (ص:۴۳،ج:۳)
(۲) بعض روایات میں ہاتھ چومنے کے دو تین شاذ واقعے ملتے ہیں اگران کی روایتی حیثیت کچھ ہو بھی تو وہ غیر ارادی طور پر محض اظہارِ محبت پر محمول ہوں گے جیسا کہ عربوں میں ایسا قومی رواج تھا۔ اور اب بھی غالباً پایا جاتا ہے کہ وہ پیشانی، پہلو ،شانے وغیرہ ملاقات کے وقت بعض دفعہ چومتے ہیں بلکہ رخسار بھی۔چنانچہ یہ واقعات بھی بالکل تازہ اسلام قبول کرنے والے لوگوں سے واقع ہوئے ہیں اور آں حضرتﷺ نے معمول کے مطابق ہونے یا بعض مصالح کی بنا پران کو روکا نہیں لیکن اس کو امر تشریعی سے کوئی تعلق نہیں، ورنہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم آپ سے یہ معاملہ عموماً کرتے جس کا صریح و صحیح ثبوت کوئی نہیں۔
علاوہ ازیں جھک کر ہاتھ چومنے کا ذکر ان روایات میں بھی نہیں جیسا کہ پیر پرست حلقوں کا معمول ہے۔
(۳) مروّجہ قدم بوسی اور گھٹنوں بوسی کی مشروعیت پر کوئی دلیل نہیں… جو دو روایتیں آپ کو دی گئی ہیں، ان میں سے کوئی بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ نہ وہ مروّجہ قدم بوسی کی دلیل ہو سکتی ہے۔
(الف) بریدہ والی روایت کی سند میں صالح بن حیان ایک راوی ہے جو سخت مخدوش ہے۔ ’’مجمع الزوائد‘‘ (ص:۱۰،ج:۹) میں ہے: ’ رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَفِیْهِ صَالِحٌُ بْنُ حَیَّان وَهُوَ ضَعِیْفٌ ‘ ’’تقریب التہذیب‘‘ (ص:۸۷) میں ہے:’ضَعِیْفٌ‘ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’فِیہِ نَظْرٌ‘ (یہ بھی محلِ نظر ہے) (تاریخ صغیر،ص:۷۵) ، التعلیقات السلفیہ علی سنن نسائی(ص:۱۶۵،ج:۲) میں بحوالہ ’’میزان الاعتدال‘‘، حافظ ذہبی اور ‘‘’’تہذیب حافظ ابن حجر، امام ابن معین، امام ابوداؤد ، امام بخاری ، امام نسائی ، حافظ ابن حبان ، حافظ دارقطنی ، حربی سے اس کی سخت تضعیف نقل کی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایت سخت مخدوش ہے۔ رہی امام حاکم کی تصحیح تو ان کا تساہل مشہور ہے۔ اس بارے میں اہل فن ان پر اعتبار نہیں کرتے۔اس لیے روایت ناقابلِ اعتماد ہی قرار پاتی ہے۔
(ب) وفد عبد القیس والی روایت بھی قابلِ حجت و اعتماد نہیں۔ اس کی سند میں مطر بن عبدالرحمن الاعنق ایک راوی ہے جس کے متعلق ’’سنن نسائی‘‘ کے حاشیہ پر ’’تہذیب‘‘ (ص:۱۴،ج:۱) کے حوالہ سے لکھا ہے:’یَروِی المقاطِع‘ (التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی،ص:۱۶۵،ج:۱) ’’یہ راوی مقطوع روایتیں بیان کرتا ہے۔‘‘
(ج) یہ واقعہ بھی عرب کی قومی عادت کی بناء پر فرطِ محبت کے نتیجے میں ہوگیا ہے ۔ بطورِ امر شرعی نہیں۔ قرینہ اس پر یہ ہے کہ یہ وفد حدیث العہد بالاسلام (اسلام کے شروع زمانہ میں) تھا۔ ایسی معمول باتوں کو ابتداء میں آں حضرتﷺ نظر انداز فرما دیا کرتے تھے۔ ایسے ہی موقع کے لیے علماء کا اصول ہے: ’وَاقِعَة عَین لَا عَموْم لَهَا ‘ (ایک اتفاقی واقعہ سے… عموم ثابت نہیں ہوتا) …… (۹ مارچ ۱۹۸۴ء)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب