سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(930) مروّجہ دست بوسی اور قدم بوسی وغیرہ کا شرعی حکم

  • 26045
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2621

سوال

(930) مروّجہ دست بوسی اور قدم بوسی وغیرہ کا شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کسی نیک بزرگ یا پیر یا پیشوا کے ہاتھ اور پاؤں کو تعظیماً بوسہ دینا درست ہے یا نہیں کیونکہ ابوداؤد شریف ج:۳حدیث نمبر ۱۷۸۴ میں ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی اکرمﷺ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا کیا ہم بھی کسی نیک سیرت بزرگ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دے سکتے ہیں۔(سائل: محمد احمد قلعہ کالر والا تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ) (۷ ستمبر ۱۹۹۰ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

امام ابوداؤد نے اپنی ’’سنن‘‘ میں کئی احادیث نقل کی ہیں۔ جن میںرسولِ کریمﷺ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کی محبت کی ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم  نے آپﷺ کے ہاتھ، پاؤں یا جسم کو بوسہ دیا۔ اسی طرح نبیﷺ نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  کے ماتھے پر بوسہ دیا اور انھیں اپنے ساتھ لگایا۔ اسی طرح آپﷺ حضرت حسین رضی اللہ عنہ  کو چوما کرتے تھے ۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا  سے ملاقات میں دونوں کا آپس میں چومنا ثابت ہے۔ سوال میں جس روایت کی طرف اشارہ ہے وہ وفد عبدالقیس کا واقعہ ہے جس میں ایک شخص منذر الاشجع بھی تھا۔ لیکن دوسرے ساتھیوں کے رسول اللہﷺ کی طرف لپک کر بوسے دینے کے باوجود اس شخص نے تحمل اور وقار کا مظاہرہ کیا اور تسلی سے اپنا سامان اور سواری باندھ کر نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور دوسروں کو بوسوں سے اظہارِ محبت کے باوجود منذر کے تحمل اور تسلی سے کام کرنے کی تعریف فرمائی۔ (سنن ابی داؤد مع عون المعبود،ج:۴،ص:۵۲۳ تا ۵۲۶)

مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ واقعات محبت کی علامات ہیں اور رسولِ کریمﷺ کی محبت دین کی اصل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:

’لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ‘(صحیح البخاری،بَابٌ:حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِیمَانِ، رقم:۱۴)

 اور بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  کو آپ نے یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اگر کوئی شخص اپنی جان سے بھی زیادہ نبیﷺ سے پیار نہ کرے تو وہ بھی مومن نہیں۔‘‘

یہ محبت اگرچہ رسول اللہﷺ کا خاصہ ہے جو کسی اور سے نہیں کی جا سکتی تاہم وہ افعال جو محبت کا مظہر ہیں۔ دوسروں کے ساتھ بھی انجام دیے جا سکتے ہیں جیسا کہ اپنی اولاد کے ہاتھ پاؤں چومنا پیار کی نشانی ہے۔ اور خود نبیﷺ نے اس کی ترغیب فرمائی ہے اور ایسی چیزوں سے محرومی بے رحمی پر محمول کی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارا یہی وطیرہ بزرگوں اور پیروں سے روا ہے  بظاہر اگر اس کی وجہ دین کی محبت اور علم کا احترام ہو تو یہ صورت جائز معلوم ہوتی ہے لیکن بعض کام مختلف پہلوؤں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایک پہلو سے پسندیدہ ہونے کے باوصف دوسرے پہلو سے خرابیوں کا باعث ہوتے ہیں یا کسی بڑے گناہ سے مشابہت ہو سکتی ہے تو برائی کے ذرائع بند کرنے کے لیے اہل علم اس سے روکتے بھی ہیں۔ جیسے کسی پیر، فقیر کے پاؤں کو بوسہ دینے کے لیے جھکنے کی صورت سجدہ کے مشابہہ ہے۔ اور محمدﷺ کی کامل شریعت میں اسی وجہ سے سجدہ تعظیمی تک کو شرک قرار دیا گیا ہے۔

امام شاطبی رحمہ اللہ وغیرہ نے بدعت کی بحث میں ایک بدعت اضافی کا ذکر کیا ہے جس کی تعریف ایسا کام ہے جو کتاب و سنت کی طرف منسوب ہو، لیکن شریعت کی مقررہ حدود سے متجاوز ہوجائے۔ سلف صالحین سے اس احتیاط کے پیش نظر ایسی چیزوں کو چھوڑنا یا مٹا دینا بھی ثابت ہے۔ جس سے عوام حدودِ شرعیہ کاپاس نہ رکھیں جیسے کہ صلح حدیبیہ کے وقت جس درخت کے نیچے چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم  نے نبیﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جب بعد میں اُس کو دیکھنے کے لیے عوام اہتمام کرتے نظر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے اس درخت کو ہی کٹوادیا۔

امام شاطبی رحمہ اللہ اولیاء اللہ کی تعظیم میں ان کی پیروی کی تاکید کرتے ہیں لیکن ان کو چومنا چاٹنا بدعات اضافیہ میں سے شمار کرتے ہیں۔ کیونکہ امام مالک رحمہ اللہ نے بزرگوں کی تعظیم کی غرض سے ان کے ہاتھوں کا بوسہ برا جانا ہے۔

اور امام سلیمان بن حرب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ ہاتھ کا بوسہ ایک چھوٹا سجدہ ہے۔ اسی طرح حافظ ابن عبدالبر نے بعض اسلاف سے نقل کیا ہے بلکہ اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہا تو اس شخص کو ایسا کرنے سے منع کرکے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ اور کہا کہ یہ کام عربوں میں ہلکا آدمی کرتا ہے، اور عجم میں ذلیل آدمی، یہی وجہ ہے کہ علماء ایسے کام کی خواہش رکھنے والے کو تکبر کا مریض قرار دیتے ہیں کہ اس غرض سے اپنے ہاتھوں کو لوگوں کے سامنے کرنا بالاتفاق مکروہ ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، الابداع فی مضار الابتدائ، ص: ۱۹۲۔ ۱۹۳)

شرک کی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ابتداء نیک لوگوں کے ساتھ عقیدت کے ایسے اظہار سے ہوئی جو بظاہر ان کی نیکی کی عظمت کا اعتراف تھاجو بعد میں ان سے متعلقہ تصاویر اور قبروں کے احترام کی ایسی صورتیں اختیار کرتا رہا۔

جنھیں شریعت کی تکمیل میں بالآخر منع کردیا گیا۔ لہٰذا تصویر کشی اب بدترین عذاب کی وعید کا مستوجب ہے تو خاص قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنے کی سختی سے ممانعت آئی ہے۔ آج کل مختلف تہذیبوں میں میل ملاقات کے آداب سے بعض لوگ ایک دوسرے کو بوسے بھی دیتے ہیں جس سے مقصد خلوص و محبت کا اظہار ہوتا ہے ایسا اظہارچونکہ تکبر کی بنا پر نہیں ہوتا۔ لہٰذا اسے بھی مکروہ نہیں کہا جا سکتا۔

خلاصہ یہ ہے کہ دست بوسی اور قدم بوسی کی اجازت یاتو صرف محبت کی غرض سے ہو سکتی ہے جیسے انسان اپنے بچوں سے کرتا ہے یا نبیﷺ کے ایسے احترام کی صورت میں جو عظمت رکوع اور سجود کے شبہ سے خالی ہو۔ فتنوں کے اس دور میں ایسے آداب جن سے مقررہ حدود سے تجاوز کرنے کا خطرہ ہو یا عوام کے شرک و بدعت میں مبتلا ہونے کا خوف ہو۔ احتراز ہی کرنا چاہیے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،متفرقات:صفحہ:636

محدث فتویٰ

تبصرے