السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جھوٹی کہانیاں(جو کہ مختلف ڈائجسٹوں وغیرہ میں شائع ہوتی ہیں۔ پڑھنا جائز ہے کہ نہیں) ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔ (آپ کا شاگرد ۔ آصف احسان ملک۔ گل بہار کالونی فیصل آباد)(۴ اکتوبر ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جھوٹے قصے کہانیاں،افسانے، ڈرامہ، ناول اور جنسی اور سنسنی خیز لٹریچر رسالے اور بے حیائی کے پرچارک اخبارات اور جدید ترین ایجادات، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ویڈیو فلمیں وغیرہ سے بے راہ روی کا درس لینا اپنی عاقبت کو خراب کرنا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿ وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان
’’اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔‘‘
قرآنی لفظ لھو الحدیث میں مذکورہ بالا سب چیزیں داخل ہیں۔ ’’سیرۃ ابن ہشام‘‘ وغیرہ میں موجود ہے کہ نضر بن حارث کا کاروبار یہی تھا کہ وہ مکہ سے عراق و فارس وغیرہ جاتا۔ وہاں سے شاہانِ عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لاکر قصہ گوئی کی محفلیں جماتا۔ تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹ جائے اور وہ قصے کہانیوں میں کھو جائیں۔ مسئلہ ہذا پر سیر حاصل بحث کے لیے ملاحظہ ہو:تفہیم القرآن (۸/۴، مولانا مودودیؒ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب