السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسلم اور مومن میں کیا فرق ہے؟(آپ کا شاگرد ۔ آصف احسان ملک۔ گل بہار کالونی فیصل آباد)(۴ اکتوبر ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایمان اور اسلام دونوں مترادف ہیں۔ انفرادی صورت میں ہر ایک کا دوسرے پر اطلاق ہوتا ہے لیکن جب دونوں جمع ہو جائیں تو ایمان کا تعلق باطنی امور سے ہوتا ہے جب کہ اسلام کا ظواہر سے اس کی واضح مثال حدیث جبریل اور قصہ ٔ وفد عبد القیس میں حدیث جبریل میں ایمان کی تعریف باطنی امور سے کی گئی ہے۔ فرمایا :
’الإِیمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِکَتِهِ، وَکُتُبِهِ، وَبِلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ‘(صحیح البخاری،بَابُ سُؤَالِ جِبْرِیلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِیمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ،رقم:۵۰)
اور قصۂ وفد عبد القیس میں ایمان کی تعریف ظاہری امور سے کی گئی ہے۔ فرمایا:
’أَتَدْرُونَ مَا الإِیمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِیتَاء ُ الزَّکَاةِ، وَصِیَامُ رَمَضَانَ، وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ المَغْنَمِ الخُمُسَ‘(صحیح البخاری،بَابٌ: أَدَاء ُ الخُمُسِ مِنَ الإِیمَانِ،رقم:۵۳)
لیکن حدیث جبریل میں اسلام کی تعریف انہی ظاہری امور سے کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حدیث جبریل میںچونکہ دونوں جمع ہو گئے ہیں۔ اس لیے ایمان کی تعریف میں باطن کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اسلام میں ظاہر کا۔
اسی بناء پر اہل علم نے کہا ہے کہ ایمان کا درجہ اسلام سے بڑا ہے۔ اَلمسلم کی تعریف میں فرمایا:
’المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ‘(صحیح البخاری،بَابٌ: المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَیَدِهِ،رقم:۱۰)
یعنی کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔
لیکن مومن کے بارے میں فرمایا:
’اَلْمُوْمِنَ مَنْ اٰمَنَ النَّاسَ بِوَائِقَه‘(مسند ابو داؤد الطیالسی،،رقم:۱۴۳۷،مصنف ابن ابی شیبة،رقم:۲۲ ۲۵۴)
یعنی مومن وہ ہے جس کی آفتوں سے لوگ مامون رہیں یعنی اس کی قلبی جلاء کی بناء پر لوگ اس سے خطرہ محسوس نہ کریں۔
جب کہ المسلم سے صرف ظاہری اذیت ناک پہلوؤں کی نفی کی گئی ہے۔ اگرچہ دل سے لوگ اس سے خطرہ محسوس کرتے رہیں۔
اس دقیق فرق کے پیش نظر علامہ خطابی رقمطراز ہیں:
’وَالحَقُّ اَن بَیْنَهُمَا عَمُوْمًا وَ خَصُوْصًا فکل مومن مُسلِم وَ لَیْسَ کُل مُسْلِم مومنا‘
حق بات یہ ہے کہ مومن اور مسلم میں عموم اور خصوص کی نسبت سے پس ہر مومن مسلم ہے لیکن ہرمسلم کے لیے مومن ہونا ضروری نہیں۔ امید ہے تشفی کے لیے بالاختصار بحث کافی ہوگی۔ جملہ تفاصیل کے لیے ملاحظہ ہو: الایمان للامام ابن تیمیہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب